سپیکر رولنگ کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی ، عدالت نے 31 مارچ کو اسمبلی کی کارروائی کا ریکارڈ طلب کرلیا۔
سپیکر رولنگ کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں لارجر بینچ نےکی ، دوران سماعت رضا ربانی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا بیان آیا ہے کہ 3 ماہ میں انتخابات نہیں ہو سکتے ، میری کوشش ہے کہ آج دلائل مکمل ہوں اور مختصر فیصلہ آجائے ۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم بھی جلدی فیصلہ چاہتے ہیں لیکن فریقین کا موقف سنیں گے ۔
رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ بدنیتی پرمبنی ہے،عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد سے 9 باربدنیتی پرمبنی اقدامات کئے گئے، تحریک عدم اعتماد 8 مارچ سے زیر التوا تھی مگر ڈپٹی سپیکر نے پارلیمینٹ کے سامنے دستاویزات رکھے بغیر رولنگ دےدی، قومی اسمبلی رولز28 کے تحت ڈپٹی سپیکرکے پاس اختیارات ہوں تب بھی رولنگ نہیں دے سکتا اور تحریک عدم اعتماد ووٹنگ کے بغیر مسترد نہیں کی جا سکتی، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ غیرقانونی ہے۔
انہوں نے کہاکہ عدم اعتماد آنے کے بعد سپیکر کے پاس تحریک مسترد کرنے کا اختیار نہیں، ڈپٹی سپیکرکی آرٹیکل 5 کو بنیاد بنا کر رولنگ خلاف آئین ہے کیونکہ آئین کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر دی گئی مدت میں ووٹنگ ہونا لازمی ہے جبکہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ آرٹیکل 69 کا تحفظ نہیں رکھتی۔ وزیراعظم عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اسمبلی نہیں توڑ سکتے، تحریک عدم اعتماد کو آئین کے تحت مسترد نہیں کیا جا سکتا، تحریک عدم اعتماد صرف تب ختم ہوسکتی ہے جب جمع کرانے والے واپس لے لیں۔عدالت سے استدعا ہے کہ عدالت نیشنل سیکیورٹی کونسل میٹنگ کے منٹس اورکیبل طلب کرنے کا حکم دے ۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے پارلیمینٹ کی کارروائی پڑھ کر سنائی اور استدعا کی کہ عدالت سپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دے کر اسمبلیاں بحال کرے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاءبندیال نے سپیکر کے وکیل نعیم بخاری کو 31 مارچ کے اجلاس کے منٹس عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔