امریکی سینیٹر کرس وان ہولن نے کانگریس میں افغانستان سے متعلق بل پیش کرنے والے 20 سینیٹرز کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے پاکستان کے مثبت کردار کی تعریف کر دی۔
سینیٹر کرس وان ہولن کا کانگریس میں پیش کئے گئے بل کے متعلق کہنا تھا کہ کوئی بھی سینیٹر بل پیش کر سکتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بل قانونی حیثیت اختیار کرلے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پربے جا انگلیاں نہ اٹھائی جائیں، ان 20 سینیٹرز کو سابق امریکی صدر ٹرمپ پر تنقید کرنی چاہیے تھی جو پاکستان اور اشرف غنی حکومت سے قیدی رہا کروا کے طالبان کو اقتدار میں لائے اور دوحہ معاہدے میں طالبان سے میں افغان فورسز پر حملے روکنے کی کوئی ضمانت نہ لی گئی۔
یاد رہے کہ ستمبر 2021ء کے وسط میں امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے اجلاس میں جب کچھ ری پبلکن سینیٹرز نے افغانستان کی صورتحال کا پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا تو ڈیموکریٹ سینیٹر کرس وین نے کھل کر پاکستان کی حمایت کی تھی اور امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن کے مخاطب کرتے ہوئے سوالات کئے کہ
- کیا یہ حقیقت نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستانی حکومت سے کہا کہ تھا وہ اس عمل کے ایک حصے کے طور پر تین اعلیٰ طالبان کمانڈروں کو رہا کرے؟
- کیا ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان کے ساتھ اتفاق نہیں کیا تھا کہ امریکی افواج مئی 2021ء تک افغانستان سے نکل جائیں گی اور ان پر حملہ نہ کرنے کی گارنٹی لی گئی تھی، لیکن افغان فورسز پر حملے کرنے پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تھی؟
- کرس وین نےعبدالغنی برادر کے رہا ہونے والوں میں شامل ہونے، دوحہ مذاکرات میں غنی حکومت کو شامل نہ کرنے اور ان پر پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کیلئے دباؤ ڈالنے سمیت کئی سوالات کئے
- سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر جو بائیڈن پر بھی مئی تک افواج نہ نکالنے پر تنقید کی تھی جیسا کہ امریکا طالبان معاہدے میں طے پایا تھا
امریکی وزیر خارجہ نے کرس وین کے سوالات پر کہا کہ “آپ درست کہہ رہے ہیں”
پاکستان کے متعلق بات کرتے ہوئے سینیٹر کرس وین کا کہنا تھا کہ پاکستان سے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا ہم نے کہا تھا، پھر ہمیں ان پر نظر بھی رکھنی چاہیے تھی۔
قانون سازوں کی پاکستان اور جو بائیڈن انتظامیہ دونوں کے خلاف دشمنی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کانگریس میں سینیٹرز کا منافقانہ رویہ حیران کن ہے۔