اسلام آباد ہائیکورٹ نے متنازع ٹویٹ کیس میں گرفتار پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی کی درخواست ضمانت منظور کر لی۔
سینیٹر اعظم سواتی کی درخواست ضمانت پر سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے کی۔اعظم سواتی کے وکیل بابر اعوان نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سندھ اور بلوچستان کی ہائیکورٹس نے اعظم سواتی کے خلاف مقدمے ختم کر دیے، انہوں نے جیب سے ایک کمپلینٹ نکالی اور مقدمہ بنا دیا، میں نے کبھی ایسی ایف آئی آر نہیں دیکھی جس میں ٹائم اور وقوعہ کی جگہ نا لکھی ہو۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے بابر اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں ایس او پیز کو فالو نہیں کیا گیا، جس پر بابر اعوان نے جواب دیا، جی بالکل، مجھے انہوں نے بتانا ہے کہ میرے موکل کے خلاف کیا چارجز ہیں، مقدمہ اس کیس میں واجب عمل ہی نہیں ہے تو فیئر ٹرائل کہاں سے ہو گا۔
بابر اعوان نے مزید کہا کہ قانون کے سامنے کوئی اچھا برا نہیں جب تک اس پر جرم ثابت نا ہو جائے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے دلائل دینے کے لیے مزید وقت کی استدعا کر دی جبکہ عدالت نے دوران سماعت استفسار کیا کہ کیس کے چالان کی کیا پوزیشن ہے؟
ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ 24 دسمبر کو چالان جمع ہو چکا، کل تین جنوری کو سماعت ہے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہوں نے جرم دوبارہ کیا ہے پہلے بھی ایک کیس زیر سماعت ہے جبکہ آئی اے حکام نے بتایا کہ اعظم سواتی نے ٹوئٹر اکاؤنٹ سرنڈر نہیں کیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے حکام سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے پہلے خود ہی جسمانی ریمانڈ ختم کیا، کیا کوئی ٹیمپرنگ کا چانس ہے؟عدالت نے اعظم سواتی کے وکیل سے استفسار کیا کہ جرم دوبارہ ہونے کا بتا دیں، جس پر دوران دلائل بابر اعوان نے حبیب جالب کے شعر کا سہارا لیتے ہوئے کہا
’ظلم رہے اور امن بھی ہو۔۔ کیا ممکن ہے تم ہی کہو‘چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد اعظم سواتی کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔بعدازاں جسٹس عامر فاروق نے سینیٹر اعظم سواتی کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں 2 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔