وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ معاشی منیجمنٹ سے صورتحال بہتر ہو جائے گی اور پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا، سعودی عرب جلد پاکستان کی مدد کرے گا جبکہ چین بھی اپنے نظام کے تحت ہمارا ساتھ دے گا۔
بدھ کو وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال، وفاقی وزیر بجلی خرم دستگیر، وفاقی وزیر اقتصادی امور ایاز صادق، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب اور وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث بخش کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جاری کردہ وائٹ پیپر کے جواب میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے درحقیقت اقتصادی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے، پی ٹی آئی نے مخصوص، غلط اور بے بنیاد اقتصادی اشاریوں کے ذریعے پاکستانی عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی، جو موازنہ کیا گیا ہے وہ اقتصادی حقائق کے برخلاف ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اپریل 2022ء میں جب موجودہ حکومت بنی تو اس کو پی ٹی آئی کے چار سالہ بری اقتصادی انتظام و انصرام سے پیدا ہونے والی صورتحال کا سامنا تھا جس کے اثرات ہماری معیشت ابھی تک بھگت رہی ہے، پی ٹی آئی نے وائٹ پیپر میں عالمی کساد بازاری، بین الاقوامی منڈیوں میں اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ، روس۔یوکرین جنگ اور پاکستان میں آنے والے بدترین سیلاب کو بھی نظر انداز کیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس وقت عالمی سطح پر کساد بازاری کا رجحان ہے،آئی ایم ایف نے 2021ء کیلئے اقتصادی ترقی کا ہدف 6 فیصد مقرر کیا تھا جس پر نظرثانی کرکے اسے 2023ء میں 2.7 فیصد کر دیا گیا ہے، پاکستان بھی اس کے اثرات سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا ہے کہ 2018ء میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 7.6 فیصد کے برابر تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب 2018ء میں مسلم لیگ (ن) حکومت چھوڑ رہی تھی تو اس وقت جی ڈی پی کے تناسب سے مالیاتی خسارہ 5.8 فیصد تھا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی آئی نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ایک سال میں 3.7 ٹریلین روپے ٹیکسوں کو 5.5 ٹریلین کرکے مالیاتی خسارہ کو 5.5 فیصد کر دیا تھا،حقیقت یہ ہے کہ مالی سال 2019ء میں جی ڈی پی کے تناسب سے مالیاتی خسارہ 7.9 فیصد تھا جبکہ ایف بی آر کے محصولات میں 0.4 فیصد کی کمی ہوئی، 2018ء میں ایف بی آر کے محاصل کا حجم 3 ہزار 843.8 ارب روپے تھا جو 2019ء میں 0.4 فیصد کم ہو کر 3 ہزار 828.8 ارب ہو گیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کا 2018ء میں اقتصادی ترقی کی شرح 1.5 فیصد اور مہنگائی کی شرح 10.5 فیصد ہونے کا دعویٰ بھی غلط اور خلاف حقائق ہے، 2018ء میں اقتصادی ترقی کی شرح 6.10 فیصد تھی جبکہ پی ٹی آئی کے پہلے سال اقتصادی ترقی کی شرح 3.12 فیصد تک گر گئی، پرانی بیس کی بنیاد پر 2018ء میں مہنگائی کی شرح 3.9 فیصد تھی جو نئی بیس پر 4.7 فیصد ہے، پی ٹی آئی کے پہلے سال میں پرانی بیس کی بنیاد پر مہنگائی کی شرح 7.3 فیصد اور نئی بیس کی بنیاد پر 6.8 فیصد تھی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ جب اگست 2018ء میں پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالی تو پالیسی ریٹ 7.5 فیصد تھا جو جولائی 2019ء میں 575 بیسز پوائنٹس بڑھ کر 13.25 ہو گیا، اس لئے 325 بیسز پوائنٹس کی بنیاد پر ڈسکائونٹ ریٹ میں اضافہ کا دعویٰ بے بنیاد اور حقائق کے منافی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کا پی ڈی ایم حکومت کے قیام کے بعد آٹا، بجلی، پٹرولیم مصنوعات، اشیاء ضروریہ، ٹماٹر، گھی اور دالوں کی قیمت میں 100 سے 200 فیصد تک اضافے کا دعویٰ بھی بے بنیاد اور خلاف حقائق ہے، پاکستان بیورو برائے شماریات کے مطابق مارچ سے دسمبر تک کی مدت میں آٹے کی قیمت میں33 فیصد، کوکنگ آئل 21 فیصد، مسور کی دال 19.5 فیصد، دال ماش 35.8 فیصد، دال چنا 36.8 فیصد، ٹماٹر 13.7 فیصد، پٹرول 47.2 فیصد اور بناسپتی گھی کی قیمتوں میں 14.9 فیصد اضافہ ہوا۔
اس کے برعکس پی ٹی آئی کے اپنے دور میں ادویات کی قیمتوں میں 300 سے 500 فیصد اضافہ ہوا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ بھی بے بنیاد اور خلاف حقائق ہے کہ مالی سال 2019ء سے لے کر مالی سال 2022ء تک 5.5 ملین نئی ملازمتیں تخلیق کی گئیں، حقیقی اعداد و شمار کے مطابق اس مدت میں 3.2 ملین نئی ملازمتیں تخلیق کی گئیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ 2013-14ء میں جب مسلم لیگ (ن) نے اقتدار سنبھالا تو پہلے سال محصولات کا حجم 2.255 ٹریلین روپے تھا جبکہ 2018ء میں حکومت چھوڑنے پر یہ حجم 3.844 ٹریلین ہو گیا، مالی سال 2018ء کے اختتام پر پی ٹی آئی کے پہلے سال محصولات کا حجم 3.82 ٹریلین روپے اور 2021-22ء میں 6.18 ٹریلین روپے تھا، رواں سال جولائی سے دسمبر تک کی مدت میں موجودہ حکومت کے دور میں ایف بی آر کے محصولات میں 17.5 فیصد کی نمو ریکارڈ کی گئی، اسی طرح جولائی سے نومبر تک کی مدت میں زرعی قرضوں کے اجراء میں 36 فیصد کا نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ 2018ء میں بڑے پیمانے پر مشینری کی درآمد اور توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی وجہ سے درآمدات میں 26 فیصد اضافہ ہوا، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہمیں لوڈ شیڈنگ کے مسائل کا سامنا تھا۔ اس کے علاوہ ملکی سلامتی سے متعلق ضروریات بھی پوری کرنا تھیں اور اسی وجہ سے 2018ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اختتام پر حسابات جاریہ کا خسارہ 19.2 ارب ڈالر تھا، اس کے برعکس پی ٹی آئی کے پہلے سال میں حسابات جاریہ کا خسارہ 13.4 ارب ڈالر، دوسرے سال 4.4 ارب ڈالر، تیسرے سال 2.8 ارب ڈالر اور آخری سال میں 17.3 ارب ڈالر تھا۔ رواں سال جولائی سے نومبر تک حسابات جاریہ کے کھاتوں کا خسارہ 57 فیصد کمی کے بعد 3.1 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے آخری سال کے اختتام پر ملک کا تجارتی خسارہ 30.9 ارب ڈالر تھا جبکہ پی ٹی آئی کے آخری سال میں یہ خسارہ 39.6 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا، رواں سال جولائی سے نومبر تک کی مدت میں تجارتی خسارہ میں 26.2 فیصد کی نمایاں کمی ہوئی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے آخری سال میں ملکی برآمدات کا حجم 32.5 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا، اس کے بدلے میں پی ٹی آئی کی حکومت نے 400 ارب روپے کی ٹیرف فنانسنگ کی، آج اگر ہم بھی اسی فارمولے پر عمل کریں تو ہمارے اعداد و شمار بہتر ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی منڈیوں میں اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کے تناظر میں برآمدات میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے، اسی طرح پی ٹی آئی کے آخری سال میں درآمدات کا حجم 72 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا جو مسلم لیگ (ن) نے 2018ء میں اپنے آخری سال میں 55.7 ارب ڈالر پر چھوڑا تھا، رواں سال جولائی سے نومبر تک درآمدات میں سالانہ بنیادوں پر 16.2 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ کی شرح 4.05 فیصد سے شروع ہو کر 6.10 فیصد تک کی سطح پر پہنچی جبکہ پی ٹی آئی کے چار سالوں میں یہ منفی 0.94 فیصد سے شروع ہو کر 5.97 فیصد کی سطح پر آ گئی، مسلم لیگ (ن) کے دور میں جی ڈی پی میں 112 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جبکہ پی ٹی آئی کے دور میں اس میں محض 61 ارب ڈالر کا اضافہ ہو سکا، مسلم لیگ (ن) کے دور میں فی کس آمدنی 27.3 فیصد کے اضافہ سے 1389 ڈالر سے بڑھ کر 1768 ڈالر سالانہ تک پہنچی جبکہ پی ٹی آئی کے 42 ماہ کی مدت میں فی کس آمدنی میں محض 30 ڈالر کا اضافہ ممکن ہو سکا، اسی طرح ملک میں مسلم لیگ (ن) کے سابق دور میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں جی ڈی پی کے تناسب سے 17.1 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ پی ٹی آئی کے دور میں یہ 15.1 فیصد تھا، اسی طرح سرمایہ کاروں کے اعتماد میں بھی پی ٹی آئی کے دور کے مقابلہ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ مئی 2018ء میں پاکستان سٹاک ایکسچینج کے سی ہنڈرڈ انڈیکس 42846 پوائنٹس ریکارڈ کیا گیا جو مئی 2013ء میں 19916 پوائنٹس تھا، مسلم لیگ (ن) کے سابق دور میں کے سی ہنڈرڈ انڈیکس میں مجموعی طور پر 22930 پوائنٹس کا اضافہ ہوا، اس کے برعکس پی ٹی آئی کے دور میں 2020 پوائنٹس کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ بھی گمراہ کن اور حقائق کے منافی ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح میں 22.5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، یہ دعویٰ لیبر فورس سروے کے اعداد و شمار سے مطابقت نہیں رکھتا۔ انہوں نے کہا کہ 2013ء میں بے روزگاری کی شرح 6 فیصد تھی جو 2018ء میں 5.8 فیصد ہو گئی، اس کے برعکس پی ٹی آئی کے پہلے سال میں 6.9 فیصد اور 2020-21ء میں 6.3 فیصد تھی۔ پی ٹی آئی کی جانب سے 1.5 ملین ٹیکسٹائل انڈسٹری اور دیگر شعبوں میں 15 لاکھ لوگوں کے بے روزگار ہونے کا دعویٰ بھی بے بنیاد اور حقائق کے منافی ہے اور اس کے حوالہ سے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ پی ٹی آئی نے مہنگائی کے حوالہ سے بھی عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے، مسلم لیگ (ن) کے سابق دور میں قیمتوں کا حساس اشاریہ سی پی آئی 5.1 فیصد تھا جو پی ٹی آئی کے دور میں 9.7 فیصد ہو گئی، اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے دور میں اشیاء خوراک کی مہنگائی کی شرح 4.5 فیصد جبکہ پی ٹی آئی کے دور میں 11 فیصد ہو گئی تھی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس وقت عالمی کساد بازاری کا رجحان ہے، بین الاقوامی منڈیوں میں یوکرین جنگ اور دیگر وجوہات کی بناء پر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، اپریل 2022ء کے بعد سے امریکی ڈالر کے مقابلہ میں مختلف کرنسیوں کی شرح میں کمی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی کی کرنسی کی قدر میں ڈالر کے مقابلہ میں 34.6 فیصد، یورو 11.1 فیصد، برطانیہ 28.6 فیصد، چین 11.1 فیصد، بنگلہ دیش 13.2 فیصد اور پاکستان کی کرنسی کی قدر میں 31.3 فیصد کی کمی ہوئی ہے، حکومت افراط زر پر قابو پانے کیلئے پالیسی، انتظامی اور ریلیف اقدامات کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2013ء سے 2018ء تک جی ڈی پی کے تناسب سے ایف بی آر کے محاصل میں اوسط اضافہ کی شرح 9.8 فیصد تھی جو پی ٹی آئی کے دور میں کم ہو کر 9.2 فیصد ہو گئی، اسی طرح جی ڈی پی کے تناسب سے مسلم لیگ (ن) کے سابق دور میں درآمدات کی شرح 15.6 فیصد تھی جو پی ٹی آئی کے دور میں بڑھ کر 18.8 فیصد ہو گئی جس سے سنگین میکرو اکنامک عدم توازن پیدا ہوا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں جی ڈی پی کے تناسب سے مالیاتی خسارہ کی شرح 5.2 فیصد تھی جو پی ٹی آئی کے دور میں 7.2 فیصد تک پہنچ گئی، پی ٹی آئی کے دور میں تجارتی خسارہ میں 31 فیصد (29 ارب ڈالر) کا اضافہ ہوا ہے، جاری مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں تجارتی خسارہ میں 26 فیصد کمی ہوئی ہے، اسی طرح حسابات جاریہ کے کھاتوں پر بھی اچھے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، موجودہ مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں حسابات جاریہ کے کھاتوں کے خسارہ میں 57 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ سیلاب اور دیگر عوامل کی وجہ سے خریف کی فصلوں میں سے کاٹن میں سے 24.6 فیصد، چاول 40.6 فیصد، چینی 7.9 فیصد اور مکئی کی فصل میں 3 فیصد کمی ہوئی ہے، بین الاقوامی ابتر اقتصادی صورتحال اور تباہ کن سیلاب کے باوجود پاکستان کے ویلیو ایڈڈ شعبہ جات مثبت اور قابل اطمینان نمو دکھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے کسان پیکیج، انڈسٹریل سپورٹ پیکیج اور برآمدات میں اضافہ کیلئے اقدامات سمیت زرعی و صنعتی شعبہ جات کی ترقی کیلئے مختلف اقدامات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کے آنے والے مہینوں میں مثبت اثرات سامنے آئیں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت کے آخری سال میں پالیسی ریٹ 6.5 فیصد تھا، پی ٹی آئی کے پہلے سال میں یہ 12.2 فیصد، دوسرے سال میں 7 فیصد، تیسرے میں 7 فیصد اور آخری سال 13.7 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ جاری مالی سال کیلئے حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے مختص بجٹ کو 364 ارب روپے تک بڑھایا ہے، حکومت نے اس پروگرام سے مستفید ہونے والوں کی تعداد کو ایک کروڑ تک بڑھانے کی منصوبہ بندی کی ہے، حکومت نے بلوچستان سے مزید پانچ لاکھ شہریوں کو اس پروگرام میں شامل کر لیا ہے جس سے صوبہ کی 65 فیصد آبادی کو سماجی تحفظ کی چھتری کے نیچے لایا جا چکا ہے، صوبہ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام(بی آئی ایس پی) کے مزید مراکز کھولے جا رہے ہیں، مندرجہ بالا اقدامات کے علاوہ حکومت نے سیلاب زدگان سمیت 2.7 ملین لوگوں کو 70 ارب روپے کی نقد معاونت فراہم کی ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے دانشمندانہ اقدامات کی بدولت زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی پر قابو پایا اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا، پی ٹی آئی کے آخری مالی سال کی تیسری سہ ماہی میں زرمبادلہ کے ذخائر میں 6.4 ارب ڈالر کی کمی ہوئی، اس کے برعکس مالی سال کی آخری سہ ماہی میں زرمبادلہ کے ذخائر میں 1.8 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ 2013ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے اختتام پر جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کی شرح 63.8 فیصد تھی جو 2018ء میں مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت کے خاتمہ پر 63.7 فیصد ہو گئی، اس کے برعکس پی ٹی آئی کی حکومت کے اختتام پر جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کی شرح 73.5 فیصد پر پہنچ گئی، جون 2018ء میں پاکستان کے سرکاری قرضوں کا حجم 24 ہزار 953 ارب روپے تھا جو مارچ 2022ء میں 44 ہزار 383 ارب روپے پر پہنچ گیا۔ سرکاری قرضوں اور واجبات کا حجم جون 2018ء میں 29 ہزار 879 ارب روپے تھا جو مارچ 2022ء میں بڑھ کر 53 ہزار 544 ارب روپے ہو گیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ گردشی قرضوں کے حوالہ سے بھی پی ٹی آئی کا دعویٰ بے بنیاد اور حقائق کے خلاف ہے، چار سالوں میں گردشی قرضوں میں دوگنا اضافہ کی ذمہ داری پی ٹی آئی پر عائد ہوتی ہے، 2013ء میں گردشی قرضوں کا حجم 503 ارب روپے تھا جو 2018ء میں 1148 ارب روپے اور پی ٹی آئی حکومت کے اختتام پر 2467 ارب روپے ہو گیا، پی ٹی آئی نے گیس کے گردشی قرضوں میں بھی نمایاں اضافہ کیا، پی ٹی آئی کے دور میں گیس کے شعبہ کے گردشی قرضوں کا حجم 1.5 ٹریلین روپے ہو گیا جس سے یہ شعبہ عدم توازن کا شکار ہوا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کو زرمبادلہ کے ذخائر کے حوالہ سے مشکل صورتحال کا سامنا ہے، پی ٹی آئی کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو وعدے کئے تھے اسی کے مطابق پی ڈی ایم کی حکومت نے ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ کیا اور ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا گیا، حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کو ٹریک پر لائی، دوست ممالک کے ساتھ بھی رابطے کئے گئے، اس وقت لیٹر آف کریڈٹ کھولنے کے مسئلہ کو جزوی طور پر حل کر لیا گیا ہے اور بہت جلد اسے معمول کی سطح پر لایا جائے گا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت اپنی تمام بیرونی ذمہ داریاں اور واجبات ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے، تمام بیرونی ادائیگیاں وقت پر ہو رہی ہیں، پی ٹی آئی نے سیاسی مقاصد کیلئے ملک کو معاشی اور سیاسی طور پر دیوالیہ ہونے کی نہج پر پہنچایا تھا تاہم ہم نے دانشمندانہ انداز میں صورتحال کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی استحکام اور مہنگائی پر قابو پانے کیلئے حکومت بھرپور اقدامات کر رہی ہے اور اس میں تھوڑا بہت وقت لگے گا کیونکہ اس حوالہ سے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے جو بدانتظامی اور اقتصادی تباہی کے حوالہ سے اقدامات کئے تھے اس کی عکاسی کریڈٹ ریٹنگ کے تین بین الاقوامی ایجنسیوں کے اعداد و شمار سے بھی ہو رہی ہے، آئی ایم ایف نے ستمبر 2022ء میں جو رپورٹ شائع کی تھی اس میں بھی یہ واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کی بڑے پیمانے پر بدانتظامی اور ناقص انتظام و انصرام کی وجہ سے ملک اقتصادی طور پر عدم توازن کا شکار ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ 2013ء سے لے کر 2018ء تک کی مدت میں مسلم لیگ (ن) کی میکرو اکنامک صورتحال کی تعریف، تصدیق اور تائید بین الاقوامی اداروں نے بھی کی ہے، 2016ء میں پاکستان کو دنیا کی 24ویں بڑی معیشت کا اعزاز حاصل ہوا اور 2030ء کے اختتام تک پاکستان کو گروپ۔20 کا رکن بننے کی پیشنگوئیاں بھی ہوئیں تاہم پی ٹی آئی کی حکومت کی چار سالہ ناقص اور بدانتظامی پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی، 2021ء میں عالمی بینک کی فہرست میں پاکستان کی معیشت 41ویں نمبر جبکہ 2022ء میں اکنامک ریسرچ یوکے کی رینکنگ میں 47ویں پوزیشن پر آئی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کبھی ڈیفالٹ نہیں کرے گا، افواہیں پھیلانی بند کی جائیں، جن کو زیادہ شوق ہے وہ اپنے سیاسی شوق کو پورا کرنے کے لئے اس طرح کی مہم میں ناکام ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ لندن میں نواز شریف کے سامنے پی ٹی آئی کے لوگوں کی لائنیں لگی تھیں مگر ہم نے ملک کو بچانا تھا اور انشاء اللہ اسی میں ہم کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے ریاست کو ڈیفالٹ اور سری لنکا بننے سے بچایا ہے، ہم نے اپنی سیاست کی قربانی دی ہے، اتحادی جماعتوں نے مل کر ملک کو ڈوبنے سے بچایا۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے فیول پرائسز آئی ایم ایف کے ساتھ کی گئی کمٹمنٹس کی وجہ سے بڑھائیں، حکومت نے جان بچانے والی ادویات کیلئے ایل سیز کھولنے کا کہا ہے، ادویات اور خوراک کی درآمد پہلی ترجیح اور پٹرولیم مصنوعات دوسری ترجیح ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چین اور سعودی عرب سے بہت جلد اچھی خبریں آ جائیں گی اور جن لوگوں نے ملک کو جس بھنور میں چھوڑا تھا ہم نے اس کو اس گرداب سے نکالا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آ ئی ایم ایف کے ساتھ 9 ویں ریویو پر بات چیت جاری ہے اور اسی مہینے میں مکمل ہوجائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ میں تمام میڈیا کے دوستوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ عوام کو بتادیں کہ پچھلی حکومت نے جو بد انتظامی کی اس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا اور پنجاب کی بات اس لئے میں کرتا ہوں کہ وہاں پر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کیونکہ ساری سپلا ئی چین پنجاب سے ہی ہے۔