عدالت میں پرویز الہی کے اعتماد کے ووٹ پر اعتراض اٹھا دیا گیا

12  جنوری‬‮  2023

لاہور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ اگر گورنرپنجاب کا نوٹیفکیشن کالعدم ہوا تو اعتماد کا ووٹ بھی کالعدم ہوجائےگا۔

لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کے وکیل نے نے اعتماد کے ووٹ کی کاپی عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اعتماد کا ووٹ لے کر سیاسی بحران ختم کردیا ہے، وزیراعلی کو 186 ممبران نے اعتماد کا ووٹ دیا۔
انہوں نے کہا کہ گورنر کا دوسرا نوٹیفکیشن وزیر اعلی کو ڈی نوٹی فائی کرنے کا تھا جسے کالعدم ہونا چاہیے۔

عدالت نے ریمارکس دئیے کہ اگر گورنرپنجاب کا نوٹیفکیشن کالعدم ہوا تو اعتماد کا ووٹ بھی کالعدم ہوجائے گا۔ جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے عدالت کو مطمئن کرنے کےلیے ووٹ نہیں بلکہ آرٹیکل 137 کے تحت ووٹ لیا ہے۔
جسٹس عاصم حفیظ نے استفسار کیا کہ اگر گورنر کل دوبارہ اعتماد کے ووٹ کا کہہ دیں تو پھر کیا ہوگا؟، اب بھی اگر گورنر کوئی نوٹیفکیشن جاری کرتے ہیں تو صورت حال کیا ہوگی۔

گورنر پنجاب بلیغ الرحمن کے وکیل نے پرویز الہی کے اعتماد کے ووٹ پراعتراض اٹھا تے ہوئے کہا کہ گزشتہ رات اعتماد کے ووٹ میں قواعد و ضوابط پورے نہیں کیے گئے۔پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ گورنر کا پہلا حکم تھا اعتماد کا ووٹ لیں وہ پورا کرلیا ہے،گورنر کا دوسرا نوٹیفکیشن وزیر اعلی کو ڈی نوٹی فائی کرنے کا تھا جسے کالعدم ہونا چاہیے۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم کہہ دیتے ہے کہ گورنر کا نوٹیفکیشن درست نہیں تھا، اور پھر آپ اسمبلی میں جو کرنا چاہیں وہ کریں، آپ کے مطابق آپ نے آرٹیکل 137 کے تحت ووٹ لیا ہے، اگر گورنر کا نوٹیفکیشن کالعدم ہوگا تو پھر تو آپ کے ووٹ لینے کا معاملہ کالعدم ہوجائے گا، آپ نے عدالت کو مطمئن کرنے کےلیے ووٹ نہیں بلکہ آرٹیکل 137 کے تحت ووٹ لیا ہے، اگر دونوں فریقین اس پر رضامندی ظاہر کرتے ہیں تو یہ حکم جاری کردیتے ہیں کہ گورنر کا نوٹیفکیشن کالعدم ہوگا، اگر دونوں فریقین رضامندی ظاہر کرتے ہیں تو یہ حکم بھی جاری کردیتے ہیں کہ گورنر نے جو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا تھا وہ ٹیسٹ ہوگیا ہے۔

گورنر کے وکیل نے کہا کہ اس میں کسی اتفاق رائے کی ضرورت نہیں ہے عدالت آرڈر کرسکتی ہے۔اٹارنی جنرل نے ووٹوں کے ریکارڈ کو عدالت کی کارروائی کا حصہ بنانے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ووٹوں کے ریکارڈ کو عدالت دلائل کا حصہ بنا دیا جائے، گورنر کو اس پر اعتراض نہ ہوگا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر دوبارہ گورنر اعتماد کا ووٹ لینے کا کہے تو اس کے کیا نتاٸج نکلیں گے، اگر گورنر دوبارہ اعتماد کے ووٹ کا کہے تو کس طرح طے کی جاٸے گا کہ گورنر کی وجوہات قابل اطمینان ہیں، کیا اسمبلی کےہرسیشن پرگورنر کا اعتماد ہونا ضروری ہے، اعتماد کے ووٹ کامرحلہ مکمل ہونے کےبعد کیا گورنر اگلے ہفتے پھر یہی عمل دہرا سکتاہے، آج کیس کا فیصلہ ہوتا ہے کل کو گورنر پھر اسطرح کا حکم جاری کر دیتا ہے تو کیا صورتحال ہوگی۔

گورنر پنجاب کے وکیل نے جواب دیا کہ معاملہ اسمبلی فلور پر ہی جائے گا۔جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ اعلی عدالتوں نے گورنر کے سردار عارف نکئی کو ہٹانے کا آرڈر کالعدم قرار دے دیا، ہم گورنر کے آرڈر پر اپنی رائے نہین دے سکتے، صرف جوڈیشل فیصلہ دے سکتے ہیں۔

جسٹس عابد عزیز نے پوچھا کہ مستقبل میں گورنر کے ایسے اقدامات کو روکنے کے لیے عدم اعتماد کے لیے کتنے دن ہونا چاہئیں۔علی ظفر ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ کم از کم 14 روز ہونا چاہئیں، گورنر پابند ہیں کہ کم سے کم سات دن کا نوٹس دیں، گورنر اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے اسپیکر اسمبلی کو کہہ سکتا ہے لیکن تاریخ اور وقت کا تعین اسپیکر کرتا ہے۔

جسٹس عابد عزیز نے کہا کہ یہاں گورنر نے پرویز الٰہی کو صرف دو روز دیے ۔جو مناسب وقت نہ تھا۔جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ گورنر کے اختیارات میں ہے کہ وہ تاریخ دے سکے۔

علی ظفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ گورنر کا وقت اور تاریخ کا تعین کرنا غیر قانونی ہوگا، گورنر اسطرح عیر قانونی طریقے سے وزیر اعلیٰ کو ہٹا نہیں سکتے تھے۔عدالت نے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی

سب سے زیادہ مقبول خبریں






About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved