وائس چیئرمین پاکستان تحریک انصاف شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے جب تک حکومت میں شامل افراد کے کیسز موجود ہیں یہ اسمبلی کو طول دیں گے۔
اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا اسپیکر قومی اسمبلی نے ہمیں اسمبلی میں بلوایا تھا، اسپیکر نے کہا تھا کہ میں ایسے استعفے منظور نہیں کر سکتا، کیا جن کے استعفے منظور کیےگئے انہیں اسپیکر نے بلایا تھا؟ یہ غیر قانونی ہے، جمہوریت کے نام پر مذاق ہے۔
ان کا کہنا تھا ہم چاہتے تھے کہ ہمارے جو ایم این ایز ہیں وہ اسمبلی جائیں، ہم اندر گئے، وہاں نہ اسپیکر ہیں نہ ڈپٹی اسپیکر، سیکرٹری ہیں نہ ڈپٹی سیکرٹری، پورا عملہ غائب ہے۔
سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی کا کہنا تھا ملک ہر گزرتے دن کے ساتھ تباہی کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے، پاکستان کو جلد سے جلد نئے انتخابات کی طرف لے جایا جائے۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا ہم ایک مجبور، لاچار پارلیمنٹ کے سامنے کھڑے ہیں، اسپیکر کہتے تھےکہ 17 سے 18 لوگ ان سے رابطے میں ہیں، اسپیکر سے پوچھتا ہوں کہ وہ 17 سے 18 لوگ کہاں ہیں؟
انہوں نے کہا کہ پاکستان آج بہت بڑے سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے، خدشہ ہے کہ ہم سری لنکا جیسی صورتحال کی طرف بڑھ رہے ہیں، مریم نواز کے کہنے پر 2 ارکان نے استعفے نہیں دیے تھے، جو حکومت اب ہے وہ صرف 36 فیصد کی نمائندہ ہے، بند کمروں کے فیصلے ہیں جن کی وجہ سے عوام بحران کا سامنا کر رہے ہیں، ہماری 81 ایم این ایز کی نشستوں پر استعفے منظور ہو چکے ہیں، ہمیں عام انتخابات کی تاریخ دی جائے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا آج اسپیکر نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وہ کسٹوڈین آف دی ہاؤس نہیں ہیں، اسپیکر نے میرے خط کے جواب میں کہا تھا کہ اجتماعی استعفے منظور نہیں کر سکتا، ہم نے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا، انہوں نے اجلاس موخر کر دیا، ہم نے اسمبلی میں آنے کا فیصلہ کیا، انہوں نے مزید 35 ممبرز کے استعفے منظور کر لیے، جو باقی رہ گئے تھے ہم ان کو بھی اسمبلی لے آئے، آپ نے ہمارے 81 ارکان کو ڈی نوٹیفائی کیا، ہم باقیوں کو لائے تھے کہ ان کے استعفے بھی منظور کریں۔
وائس چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا ان کے قول و فعل میں تضاد ہے، یہ عوام کا فیصلہ نہیں چاہتے بلکہ اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں، جب تک ان کے کیسز موجود ہیں یہ اسمبلی کو طول دیں گے، ہم تو پنجاب میں آزمائش پر پورا اترے، آپ اپنے ممبرز کو آزمائش میں ڈالنے سے بھی کترا رہے ہیں۔
شاہ محمود قریشی کا کہن تھا یہ معیشت مستحکم نہیں کر سکے، دہشتگردی پھر سر اٹھا رہی ہے، ، ہم نئے انتخابات چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں عوام فیصلہ کریں۔