امریکی وزارت دفاع کے اعلیٰ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی اجازت نہیں دی جائے گی، اگر سفارت کاری کے ذریعے مسائل حل نہ ہوئے تو دیگر آپشنز پر بھی غور کیا جائے گا۔ برطانوی نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق آج اسرائیل کے قومی سلامتی کے مشیر ایال ہالوتا اپنے امریکی ہم منصب جیک سیلوان کے ساتھ ملاقات میں انٹیلی جنس معلومات شیئر کریں گے، جس کے بعد جائزہ لیا جائے گا کہ تہران نے جوہری پروگرام میں کس حد تک اضافہ کیا ہے اور اس کے خلاف کس نوعیت کے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
اسرائیلی جریدے دی ٹائمز آف اسرائیل کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں نئی حکومت کے قیام کے بعد اسرائیل کے مشیر سلامتی کی امریکی ہم منصبوں کے ساتھوفود کی سطح پر کئی میٹنگز ہو چکی ہیں، لیکن آج کی میٹنگ میں ایال ہالوتا امریکی ہم منصب کے ساتھ انفرادی ملاقات بھی کریں گے، اس نوعیت کی ملاقات نئی حکومت کے قیام کے بعد پہلی بار ہو رہی ہے جس میں ایران کے خلاف فیصلہ کن اقدامات پر غور کیا جائےگا۔
Biden national security adviser to host Israeli counterpart for talks on Iran https://t.co/0wrIX1oekN
— The Times of Israel (@TimesofIsrael) October 5, 2021
Today I met with incoming Israeli National Security Advisor Dr. Eyal Hulata. We discussed working together to strengthen all aspects of the U.S.-Israel partnership and the upcoming visit to Washington by Israeli Prime Minister Bennett, who we look forward to welcoming soon.
— Jake Sullivan (@JakeSullivan46) August 2, 2021
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ہم ایران کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ پر نظر رکھے ہوئے ہیں، امریکہ اپنے موقف پر قائم ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام میں اضافہ دنیا کے امن کیلئے خطرہ ہے۔ بائیڈن انتظامیہ تمام مسائل سفارتکاری کے ذریعے حل کرنے کی زبردست حامی ہے، لیکن اگر اس طرح مسائل حل نہ ہوئے تو دیگر آپشنز کا استعمال بھی کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کیلئے ستمبر 2021ء کے آغاز میں امریکی اور اسرائیلی قومی سلامتی کے عہدیداران کا ایک خصوصی اجلاس ہوا تھا جس میں خصوصی طور پر ایران کے ایٹمی پروگرام پر گفتگو کی گئی تھی۔ اجلاس میں ایران کے جوہری معاہدے میں واپس نہ آنے کی صورت میں “پلان بی” پر بھی گفتگو ہوئی جس کے مندرجات میڈیا کے ساتھ شیئر نہیں کئے گئے تھےلیکن اسرائیل میڈیا کا دعویٰ تھا ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کیلئے حتمی اقدامات کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اسرائیل وزیراعظم نفتالی بینیٹ کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76 ویں اجلاس سے خطاب میں کہنا تھا کہ اسرائیل سمیت کئی ممالک ایران کے امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ جوہری معاہدے کے بارے میں سن سن کر تھک گئے ہیں، لیکن اسرائیل نہیں تھکا اور نہ تھکےگا،ایران نے جوہری پروگرام کے حصول کیلئے ریڈ لائنز کراس کر دیں لیکن اسرائیل ایران کو ایٹم بم بنانے کی اجازت نہیں دے گا، اس کیلئے کسی بھی قسم کی کارروائی سے گریز نہیں کیا جائے گا ۔
ایران امریکہ کے جوہری معاہدے میں کیا ہوا؟
ایران اور امریکہ کے مابین مغربی ممالک کے اشتراک سے2015ء میں ایک جوہری معاہدہ ہوا تھا جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کم ہو گئی تھی، لیکن 2018ء میں امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے الگ ہو تے ہوئے ایران پر پابندیوں کا اعلان کر دیا تھا۔ جس کے بعد مختلف ممالک کی جانب سے بیک ڈور ڈپلومیسی کے تحت دونوں ممالک میں جوہری معاہدے کی بحالی کیلئے مذاکرات کی کوششیں کی گئیں لیکن اسرائیل کے سابق وزیراعظم نیتن یاہو بھی اس کی مخالفت کرتے رہے اورامریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک پر زور دیتے رہے کہ ایران کو مذاکرات کی بجائے طاقت کے استعمال سے روکنا چاہیے، کیونکہ ایران مذاکرات کے نام سے صرف وقت گزار رہا ہے اورپوری قوت سے اپنا ایٹمی پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے۔ جیسے اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے ایران کو فیصلہ کن کاروائی سے گریز نہ کرنےکی دھمکی دی سابق وزیراعظم بھی ایرانی حکام کو ایسے ہی سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے تھے۔ اس کے ساتھ اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں نے ایران کے اندر کاروائیاں کرتے ہوئے نہ صرف ایران کے جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو ہلاک کیا بلکہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔