فرانس کے کیتھولک چرچ میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے اعداادوشمار سامنے لانے کیلئے 2018ء میں ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا جس نے تحقیقات کے بعد اڑھائی ہزار صفحات پر مبنی رپورٹ تیار کی ہے۔ رپورٹ میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے ہولناک اعدادوشمار سامنے آئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فرانس کے کیتھولک چرچ کے پادریوں نے 1950ء سے اب تک دو لاکھ سولہ ہزار سے زائدبچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کیتھولک سکولوں کے اساتذہ کی جانب سے کی جانے والی جنسی زیادتیوں کو بھی شامل کیا جائے تو متاثرہ بچوں کی تعداد تین لاکھ تیس ہزار سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں کی اوسط عمریں 10 سے 13 سال کے درمیان ہیں اور ان میں زیادہ تعداد لڑکوں کی ہے۔بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں چرچ کے 2900 سے 3200 پادری اور چرچ کے دیگر اراکین ملوث رہے۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب دنیا بھر میں کیتھولک چرچ کے پادریوں اور دیگر اہلکاروں کے خلاف جنسی زیادتیوں کے بہت سے الزامات اور مقدمات سامنے آ چکے ہیں جن میں سے اکثر کو دبانے کی کوشش کی گئی۔
کمیشن نےرپورٹ میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چرچ نہ صرف ان جنسی زیادتیوں کو روکنے میں ناکام رہا بلکہ ایسے کیسز کو رپورٹ کرنے میں بھی مکمل طور پرناکام رہا۔ اس کے علاوہ کئی مرتبہ بچوں کو ایسے افراد کے ساتھ چھوڑ دیا جاتا تھا جن کے بارے میں معلوم ہوتاتھا کہ وہ جنسی زیادتی کرتے ہیں۔
کمیشن میں تحقیقاتی عمل کی سربراہی کرنے والے سربراہ جین مارک ساؤوے کا کہنا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ غفلت، خاموشی اور ادارے کی سطح پر معاملے کو چھپانے جیسی چیزوں کا مجموعہ ہے۔ مزید کہا کہ 2000ء کی دہائی تک چرچ نے انتہائی ظالمانہ طریقے سے متاثرین کو نظر انداز کیا اور ان کے الزامات پر توجہ نہ دی گئی۔ اب یہ کیسز اتنے پرانے ہوچکے ہیں کہ فرانسیسی قوانین کے مطابق ان پر قانوننی کارروائی نہیں ہو سکتی لیکن رپورٹ میں چرچ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان کیسز کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے متاثرین کو معاوضہ ادا کرے۔
ویٹیکن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ انہیں متاثرین کی تکلیف پر انتہائی افسوس ہے۔