پاکستان کی تقریباً 46 فیصد آبادی کو ابھی یہ معلوم ہی نہیں کہ انہیں ہائی بلڈ پریشر ہے، جبکہ اس بیماری میں مبتلا ہونے والے 20 فیصد لوگ ادویات کا استعمال نہیں کرتے ہیں، جبکہ 10 فیصد خواتین حمل کے دوران اس بیماری سے متاثر ہوتی ہیں۔
یہ انکشاف اسلام آباد میں موجود ڈاکٹر عبدالغفار بلو لیکچر ہال میں ڈاؤ انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے زیر اہتمام ایک سیمینار ’ہائی بلڈ پریشر خاموشی سے بڑھتی ہوئی وبا‘ میں ماہرین کی جانب سے کیا گیا ہے۔
پروفیسر زیبا حق، ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کالج کی پرنسپل کا کہنا ہے کہ اگرچہ ہائی بلڈ پریشر کوئی وبا نہیں ہے، لیکن بڑھتے ہوئے پھیلاؤ کی وجہ سے یہ ایک وبا کی شکل اختیار کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بارے میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ لوگ اپنی طرز زندگی اور غذا میں تبدیلی پیدا کرکے اس پیمارے سے کیسے بچ سکتے ہیں، اس کے علاوہ اگر کسی انسان میں اس بیماری کی تشخیص ہوچکی ہے تو انہیں کیا اقدامات کرنے چاہیے۔
آفس آف ریسرچ انوویشن اینڈ کمرشلائزیشن کے ڈائریکٹر پروفیسر کاشف شفیق کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں ایک ارب 30 کروڑ سے زائد لوگ ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ہر پانچواں شخص موت کے منہ میں جارہا ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں 46 فیصد لوگوں کو یہ جانتے ہیں نہیں ہیں کہ انہیں ہائی بلڈ پریشر ہے جبکہ اس بیماری میں مبتلا ہونے والے 20 فیصد لوگ ادویات کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس سے بھی بدترین صورتحال یہ ہے کہ بیماری سے بچنے کے لیے ادویات کا استعمال کرنے والے 5 میں سے صرف ایک مریض ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔
پروفیسر کاشف شفیق نے کہا کہ پوری دنیا میں 85 لاکھ لوگ ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، کئی سالوں کے دوران پاکستان میں قلبی امراض کے مریضوں میں دگنا اضافہ ہوا ہے اور اسی طرح ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرے میں اس بیماری پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
پروفیسر کاشف کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہائی بلڈ پریشر کو روکنے کے لیے کوششیں نہیں کی جارہی ہیں، پاکستان میں زیادہ تر مریضوں کو معلوم ہی نہیں کہ وہ اس بیماری میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے وہ دل کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری توجہ صحت مند جسم اور دماغ پر مرکوز ہونی چاہیے، جس کے لیے سب سے پہلے ہمیں کم چکنائی والے کھانے کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے طرز زندگی کو تبدیل کرنا ہوگا، کھانے میں نمک کا کم سے کم استعمال کرنا ہوگا، وزن کو کنٹرول کرنا ہوگا، باقاعدگی سے ورزش کرنا ہوں گی، کم سے کم چکنائی والے کھانے کا استعمال لازمی بنانا ہوگا اس کے علاوہ جو لوگ تماکوشی کے عادی ہیں وہ سب سے پہلے سگریٹ پینا کم کریں اور پھر آہستہ آہستہ اسے مکمل ترک کردیں۔
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ پروفیسر جہاں آرا نے اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں میں 37 فیصد مرد اور 39 فیصد خواتین شامل ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ہائی بلڈ پریشر دنیا بھر میں خواتین میں موت کی دوسری بڑی وجہ ہے، 65 سے 74 سال کی عمر کی 58 فیصد خواتین ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوجاتی ہیں، مینوپاز کے بعد خواتین میں ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ بڑھ جاتا ہےجبکہ موٹاپا ہائی بلڈ پریشر کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے سربراہ ڈاکٹر طارق فرمان کا کہنا ہے کہ جس طرح جنگ کو روکنے کے اقدامات کیے جاتے ہیں بالکل اسے طرح اس بیماری سے بھی نمٹا جائے۔
سیمینار میں دل اور پھیپھڑوں کے امراض کے ادارے کے سربراہ پروفیسر افتخار اور پاکستان کارڈیالوجی سوسائٹی کی نمائندگی کرنے والے پروفیسر جاوید سیال نے بھی خطاب کیا۔