امریکہ اور طالبان کے انخلاء سے قبل سےلیکر اب تک باہمی روابط تو موجود ہیں لیکن طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد ہفتے کے روز دوحہ میں ہونے والی یہ پہلی براہ راست میٹنگ ہو گی جسے سفارتی پروٹوکول کے تحت شیڈول کیا گیا ہے۔
امریکی وفد میں محکمہ خارجہ کے علاوہ یو ایس ایڈ اور انٹیلی جنس کے افسران بھی شامل ہوں گے جبکہ افغانستان کے کارگزار وزیر خارجہ امیر خان متقی کی قیادت میں طالبان کا وفد پہلے سے دوحہ پہنچ چکا ہے۔ طالبان کے وفد میں جاسوسی کے شعبے کے سربراہ ملا عبدالحق واثق، اطلاعات اور ثقافت کے وزیر ملا خیراللہ اور سینئر رہنما شیخ شہاب الدین دلاور شامل ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم طالبان پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ تمام افغان باشندوں، بشمول خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کا احترام کریں اور وسیع حمایت کے ساتھ ایک شمولیتی حکومت تشکیل دیں۔ اس وقت افغانستان کو شدید اقتصادی مسائل کا سامنا ہے اور ممکنہ انسانی بحران کا بھی خدشہ ہے، ہم طالبان پر یہ بھی دباؤ ڈالیں گے کہ وہ انسانی امدادی ایجنسیوں کو ان تمام علاقوں میں رسائی کی آزادی دیں جہاں امداد کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ دونوں ممالک انسداد دہشت گردی اور افغانستان میں القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو دوبارہ سے سرگرم ہونے سے روکنے کے طریقہ کار پر بھی بات چیت کرسکتے ہیں۔
خلیجی نشریاتی ادارے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے ترجمان طالبان سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ امارت اسلامی کی کابینہ میں اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی ہے اور خواتین کو بھی بعد میں شامل کیا جائے گا۔ہم اسلامی امارات کو شمولیتی بنانے کیلئے تیار ہیں لیکن اسے ترجیحی نہیں بنایا جائے گا۔ مغربی میڈیا کے مطابق امریکی حکام شمولیتی حکومت کے نام پر سابق حکومت کے رہنماؤں کو کابینہ میں شامل کرانا چاہتا ہے جس پر طالبان نے پہلے سے سردمہری کا اظہار کردیا ہے۔