امریکہ نےرواں سال جنوری میں تبت کیلئے خصوصی نمائندہ تعینات کرتے ہوئے چین سے مطالبہ کیا تھا کہ چین نئے دلائی لامہ کے انتخاب میں مداخلت سے گریز کرے۔ چین نے ان اقدامات کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ دلائی لامہ کے جانشین کا انتخاب تبت میں بدھ مت کے پیروکاروں کا مذہبی معاملہ ہے،چینی حکومت کا کوئی تعلق نہیں، چین نے مزید سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ امریکا مذہبی آزادی کی آڑ میں چین کے اندورنی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے، دلائی لامہ کے جانشین کے انتخاب کے لئے واشنگٹن کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، ان اقدامات کے ذریعے امریکہ تبت میں مداخلت کیلئے اقوام متحدہ کا استعمال کر رہا ہے، امریکہ اسکے نتائج سے خبردار رہے۔
امریکہ مغربی ممالک اور بھارت تبت کو کیوں متنازعہ علاقہ سمجھتے ہیں، دلائی لامہ کون ہیں، بھارت کا ان معاملات سے کیا تعلق ہے، آئیے آپ کو اسکے تاریخی پس منظر سے آگاہ کرتے ہیں۔
تبت جسے جغرافیائی اعتبار سے دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہےبھارت کے شمال مشرق میں بدھ مت پیروکاروں کی اکثریت کا حامل علاقہ ہے جسے چین میں خودمختار صوبے کی حیثیت حاصل ہے۔چین نے 1950ء میں اپنی اندرونی علاقائی تقسیم کی غرض سے تبت کے زیادہ تر علاقوں کو ملا کر اسے ایک خود مختار صوبے کا درجہ دے دیا جبکہ باقی علاقوں کو انکے ساتھ ملحق دیگر صوبوں سے ملا دیا۔ چینی حکومت نےان اقدامات کے لئے تبت کی انتظامیہ سے باقاعدہ معاہدہ بھی کیا۔
دلائی لامہ کون ہیں؟
اگر چین اور دلائی لامہ کے کردار کو چین اور تبت کی تاریخ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، کیونکہ یہ تنازعات چین کی آزادی سے لیکر اب تک چلے آرہے ہیں۔ دلائی لامہ دراصل بدھ مت کے روحانی پیشوا کا سلسلہ ہے، اس کردار کی کڑیاں 1409ء میں تبت میں قائم کئے گئے جیلوگ سکول سے ملتی ہیں جو بدھ مت کی تعلیمات پھیلانے کیلئے بنایا گیا۔گیدون اسکے سب سے معروف طالبعلم تھے جو کہ بعد میں پہلے دلائی لامہ بنے۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا آ رہا ہے، تاریخی اعتبار سے دلائی لامہ اپنی زندگی میں ہی نئے دلائی لامہ کا عندیہ دیتا ہے اور موجودہ دلائی لامہ اپنی موت سے قبل بتاتا ہے کہ اس کا اگلا جنم کس گھر میں ہوگا اور اس گھر میں پیدا ہونے والے نئے بچے کو دلائی لامہ سمجھا جاتا ہے۔ موجودہ چودہویں دلائی لامہ کا اصل نام تنزن گیاتسو ہے جنہیں محض دو سال کی عمر میں 1937ء میں دلائی لامہ کے منصب پر بٹھانے کی تیاریاں شروع کر دی گئی تھیں، دلائی لامہ دنیا بھر میں بدھ مت کے پیروکاروں کے روحانی پیشوا ہیں جنہیں ان کے پیروکاروں کی جانب سے” زندہ خدا” بھی کہا جاتا ہے۔
دلائی لامہ کا چین کے ساتھ کیا تنازعہ ہے؟
چین نے اپنی آزادی کے بعد 1950ء میں تبت کو تقسیم کر دیا لیکن 1959ء میں موجودہ دلائی لامہ نے اسکے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔ بغاوت میں بری طرح ناکام ہونے کے بعد 17 مارچ 1959ء کو تبت کے دارالخلافہ لہاسا سے پیدل بھاگ گئے اور 31 مارچ 1959ء کو اپنے چندعلیحدگی پسندوں اور وزراء کے ہمراہ بھارت کے علاقے دھرم شالہ آ گئے۔ اس وقت انکی عمر صرف 20 سال تھی، انہوں نے بھارت میں سیاسی پناہ لیتے ہوئے جلا وطنی اختیار کر لی لیکن تبت کے 80ہزار سمیت دنیا بھر کے بدھ مت اب بھی انکی پیروی کرتے ہیں۔
یہاں سے تنازعات کا آغاز ہوتا ہے کیونکہ چین کا موقف ہے کہ تبت تیرہویں صدی کے وسط سے چین کا علاقہ ہے جبکہ دلائی لامہ کا کہنا ہے کہ 1912ء میں اس وقت کے تیرہویں دلائی لامہ تبت کی آزادی کا اعلان کر چکے تھے اسلئے تبت آزاد علاقہ ہے۔ چین چودہویں دلائی لامہ کو علیحدگی پسند قرار دیتا ہے جو کہ اب تک بھارت میں جلاوطنی کی زندگی گزارتے ہوئے تبت کی خود مختاری کی کوشش کر رہے ہیں، ان کوششوں میں انہیں امریکہ بھارت سمیت مغربی ممالک کی ہمدردیاں اور حمایت بھی حاصل ہے۔
چین کا تبت کے معاملے میں بھارت کے ساتھ کیاتنازعہ ہے؟
چین ارونا چل پردیش کے علاقے توانگ کو تبت کا حصہ مانتے ہوئے اسے جنوبی تبت کا علاقہ قراردیتا ہے ، چین کا کہنا ہے کہ توانگ اور تبت میں بہت زیادہ ثقافتی مماثلت پائی جاتی ہے، توانگ متنازعہ علاقہ ہے اس پر بھارتی حق تسلیم نہیں کرتے۔ اسی لئے فروری 2020ء میں جب نریندر مودی نے اس علاقے کا دورہ کیا تو چین نے اسکے خلاف باضابطہ طور پر احتجاج بھی ریکارڈ کرایا۔
تبت سے گزرنے والے دریاؤں کابہاؤ بھارت کی طرف ہے جس پر چین نے بڑے ڈیمز بنانا شروع کر دئیے ہیں۔ رواں سال چین نے ارونا چل پردیش کیساتھ ملحق سرحدی علاقے میں تبت کے200 ملین کلو واٹ پانی کے ذخیرے کا حامل دریائے براہم پترا پر ایک بڑے ڈیم کی تعمیر بھی شروع کر دی ہے۔
ان اقدامات کیساتھ چین نے لداخ کے بعد بھارت کیساتھ بھوٹان کے سرحدی علاقوں میں فوجی بنکرز تعمیر کرنا شروع کر دئیے ہیں، بھارتی حکومت خوف میں مبتلا ہے کہ کہیں چین ارونا چل پردیش میں بھی لداخ جیسی فوجی کاروائی نہ کردے۔
تبت کے معاملے میں بھارت کا دہرا معیار
بھارت نے امریکی ایماء پردلائی لامہ کو سیاسی پناہ دے رکھی ہے جہاں سے وہ چین کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں اور آئے روز چین کی سالمیت کے خلاف بیانات دیتے ہیں، چین نے بارہا مطلوب افراد کے زمرے میں بھارت سے دلائی لامہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا لیکن بھارت ہمیشہ ٹال مٹول کرتا رہا۔
بھارت نے چین سے تعلقات بہتر بنانے کیلئےجون 2003ء میں اچانک تبت کو چین کا حصہ تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا جسے ایک بہت بڑا بریک تھرو قرار دیا جانے لگا اور امید کی جا رہی تھی کہ چین اور بھارت کے تمام تنازعات حل ہو جائیں گے لیکن فیصلے کے کچھ دن بعد ہی بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے امریکی دباؤ کے باعث اپنے فیصلے سے یوٹرن لے لیا ۔ اُس کے بعد سے آج تک بھارت کے چین کے ساتھ سرحدی تنازعات کشیدہ ہیں جسکی وجہ سے کئی بارفوجی تصادم بھی ہو چکا ہے۔ بھارتی جریدے ہندوستان ٹائمز کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق مستقبل میں بھارت کا دلائی لامہ اور تبت پر موقف چین کیساتھ کشیدگی کو ہوا دیتے ہوئے کسی تصادم کا باعث بن سکتا ہے۔
تبت پر امریکی سیاست
امریکہ اور مغربی ممالک کیطرف سے دنیا بھر کے علیحدگی پسندوں کو سیاسی پناہ دینے اور پھر انہیں اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی تاریخ گواہ ہے۔ امریکہ تواتر سے دلائی لامہ کو سیاسی پناہ دینے پر بھارت کی حمایت اور چینی رویے کی مذمت کرتا رہا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے آخری ایام میں تبت کیلئے خصوصی نمائندہ مقرر کرنے کے علاوہ امریکی کانگرس اور سینیٹ نے متفقہ طور پر “تبت پالیسی اینڈ سپورٹ ایکٹ” منظور کیا جس میں دلائی لامہ کی علیحدگی پسند تحریک کی حمایت کی گئی اور اسے تبت آزادی تحریک کی بڑی جیت قراردیا گیا۔ چینی دفتر خارجہ نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرے ورنہ اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان غیر قانونی اقدام کے ردعمل میں چین تبت میں امریکیوں کے داخلے پر پابندی سمیت دیگر سفری پابندیاں بھی عائد کرسکتا ہے۔ امریکہ آگاہ رہے کیونکہ چین اسکے ساتھ Tit for Tat جیسا رویہ برتا جائے گا۔
اس کیساتھ چین نے تبت میں امریکی اشاروں پر چلنے والوں کو واضح پیغام دیتےہوئے کہا ہے ہم نے تبت میں علیحدگی پسندوں کیساتھ سختی سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی بنا لی ہے، کوئی غلط فہمی میں نہ رہے، قومی مفادات کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا۔