بنگلا دیشی طلبا نے عوامی لیگ کے حامیوں کو شیخ مجیب الرحمٰن کی برسی منانے سے روک دیا۔
جمعرات کو شیخ مجیب الرحمان کی 49 ویں برسی کے موقع پر دارالحکومت ڈھاکا میں عوامی لیگ کے حامیوں نے شیخ مجیب کی سابقہ رہائش گاہ جانے کی کوشش کی جنہیں ڈنڈے اور لوہے کے پائپ پکڑے طلبا نے وہاں جانے سے روک دیا۔
طلبا مظاہرین نے میوزیم کی جگہ کو خاردار تاروں سے بند کر دیا جبکہ شیخ حسینہ کے حامیوں کو روکنے کیلئے طلبا کے گروپس علاقے میں گشت کرتے دیکھے گئے۔
واضح رہے کہ بھارت فرار ہونے والی معزول وزیراعظم حسینہ واجد نے اپنے حامیوں سے اس دن کو بھرپور انداز میں منانے کی اپیل کی تھی۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ حسینہ کے حامیوں کے اجتماع کو روکنے کے لیے نکلے ہیں کیونکہ وہ برسی کے نام پر افراتفری پھیلانے کی کوشش کر سکتے ہیں، ہم یہاں انقلاب کی حفاظت کیلئے جمع ہوئے ہیں تاکہ انقلاب ہاتھوں سے نہ پھسل جائے۔
یاد رہے کہ ڈھاکا کے علاقے دھان منڈی میں واقع گھر میں 15 اگست 1975 کو فوجی بغاوت کے دوران شیخ مجیب اور انکے خاندان کے بیشتر لوگوں کو قتل کردیا گیا تھا، اس واقعے میں شیخ حسینہ اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ بچ گئی تھیں کیونکہ وہ پڑھائی کیلئے جرمنی میں موجود تھیں۔
شیخ حسینہ نے اپنے دور اقتدار میں اس گھر کو میموریل میوزیم میں تبدیل کردیا تھا، 5 اگست کو شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے چند گھنٹے بعد مظاہرین نے اس میوزیم کو نذر آتش کر دیا تھا۔
اس سے پہلے 15 اگست کو بنگلا دیش میں عام تعطیل ہوتی تھی اور اس دن کو قومی یوم سوگ کے طور پر منایا جاتا تھا تاہم نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں بننے والی عبوری حکومت نے اب اس تعطیل کو منسوخ کر دیا ہے۔
جولائی میں سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خلاف مظاہروں کے ساتھ شروع ہونے والی بدامنی میں 300 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے جو بعد میں حسینہ واجد کی آمرانہ حکومت کے خلاف تحریک میں تبدیل ہو گئے۔
اس بغاوت نے بالآخر حسینہ کو عہدہ چھوڑنے اور ہندوستان فرار ہونے پر مجبور کر دیا جس سے ان کی 15 سالہ حکمرانی ختم ہوگئی۔