افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پاکستان چاہے تو ہم پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
برطانوی ادارے انڈیپنڈنٹ اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے افغان طالبان کے ترجمان نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ بھائی چارے پر مبنی تعلقات استوار کریں، پاکستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور دوسرے کسی ملک کے ساتھ افغانستان کی اتنی زیادہ چیزیں مشترک نہیں جتنی پاکستان کے ساتھ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں، یہ ہماری اور پاکستان کی ضرورت ہے، پاکستانی عوام کا افغان عوام ساتھ بھائی چارے اور اخوت کا تعلق ہے لیکن افسوس کہ پاکستان کے بعض اقدامات جیسے ٹی ٹی پی کا مسئلہ، جو پچھلے 20 سال سے ہے اور ٹی ٹی پی نے پاکستان میں جنگ کی ہے اور ان کے خلاف پاکستان نے آپریشن ضرب عضب وغیرہ کیے، یہ پاکستان کا مسئلہ ہے لیکن افسوس کہ ہر کارروائی کا ذمہ دار افغانستان کو ٹھہرایا جاتا ہے، جس سے بد اعتمادی کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستانی سیکیورٹی ادارے قیام امن پر توجہ دیں اور سوال کیا کہ بنوں یا کسی دوسرے علاقے میں کارروائی کا ذمہ دار افغانستان کو کیوں ٹھہرایا جاتا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہم کسی کو بھی افغانستان سے کسی دوسرے ملک میں جنگ کی اجازت نہیں دیتے، ہم جنگ کو پسند نہیں کرتے اور کسی کو افغان سر زمین پاکستان یا کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کے پاس کوئی معلومات ہیں تو وہ ہمارے ساتھ شیئر کرے کہ انہیں افغانستان سے کیا مسئلہ ہے، لیکن میڈیا پر الزامات لگانا عوام کے مابین نفرتیں پھیلاتا ہے اور اس سے بے اعتمادی کی فضا قائم ہوتی ہے، اس میں نقصان ہے کیونکہ ہم پاکستان سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔
پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کے حوالے سے سوال پر افغان طالبان کے ترجمان نے کہا کہ اگر پاکستان چاہے تو ہم اسی صورت میں ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں، حکومت پاکستان چاہے تو پھر ہم بھائی چارے کے اصولوں پر اپنی کوششیں کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان چاہے تو ہم صلح کے لیے کوشش کریں گے لیکن اگر پاکستان نہیں چاہتا تو پھر ہم مداخلت نہیں کر سکتے اور پھر یہ ان کا کام ہے کیونکہ یہ ان کا اندرونی مسئلہ ہے لیکن اگر چاہیں تو ہم ثالثی کریں گے کیونکہ ہم یہ پہلے بھی کر چکے ہیں اور پھر کریں گے۔
پوست کی کاشت میں کامیابی سے 95 فیصد تک کمی کے حوالے سے سوال پر افغان حکومت کے ترجمان نے کہا کہ ہم نے پوست کی کاشت ختم کرنے لیے اقدامات اٹھائے کیونکہ افغانستان میں 40 لاکھ سے زائد لوگ منشیات کے عادی ہیں، افغانستان سے منشیات دیگر ممالک کو اسمگل کی جاتی تھی جس سے انسانوں کو خطرہ تھا، اسی وجہ سے ہم نے کوششیں شروع کیں اور پوست کاشت کرنے نہیں دی۔