بنگلہ دیش کے آرمی چیف نے ملک میں کلیدی اصلاحات مکمل کرنے اور آئندہ 18 ماہ میں انتخابات کے انعقاد کو ممکن بنانے کے لیے ملک میں قائم عبوری حکومت کی ہر صورت میں حمایت کا اعلان کیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق جنرل وقار الزمان نے ڈھاکا میں رائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت میں قائم عبوری حکومت کو ان کی مکمل حمایت حاصل ہے، جبکہ انہوں نے فوج کو سیاسی اثرورسوخ سے آزاد کرنے کے لیے ایک منصوبہ بھی پیش کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اہداف کے حصول کو ممکن بنانے تک وہ عبوری حکومت کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
عالمی مائیکرو کریڈٹ تحریک کے بانی محمد یونس نے پولیس، عدلیہ اور مالیاتی اداروں میں ضروری اصلاحات کرنے کا وعدہ کیا ہے تاکہ ملک میں آزاد اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کی راہ ہموار ہوسکے۔
شیخ حسینہ واجد کی معزولی سے کچھ عرصہ قبل فوج کی کمان سنبھالنے والے جنرل وقار الزمان نے کہا کہ اگر ان سے پوچھا جائے کہ وہ کونسا وقت ہوگا جب بنگلہ دیش کو جمہوریت کے عمل میں داخل ہونا چاہیے، تو ان کا جواب ہوگا کہ جمہوری عمل میں منتقلی ایک سے ڈیڑھ سال کے درمیان ہونی چاہیے تاہم وہ صبر کرنے کی ضرورت پر زور دیں گے۔
بنگلہ دیش کی دو اہم سیاسی جماعتوں شیخ حیسنہ واجد کی عوامی لیگ اور نیشنلسٹ پارٹی نے اگست میں عبوری حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے تین ماہ کے اندر انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔
جنرل وقار الزمان نے کہا کہ وہ عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس سے ہر ہفتہ ملاقات کرتے ہیں اور ان کے درمیان اچھے تعلقات ہیں، عسکری قیادت بنگلہ دیش میں ہونے والی بدامنی کے بعد حکومت کے معیشت کو استحکام دلانے والے اقدامات کی مکمل حمایت کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ اگر وہ مل کر کام کریں گے تو ضرور کامیاب ہوں گے۔
بنگلہ دیش کے آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ان کے قیادت میں بنگلہ دیش کی فوج سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی، انہوں نے مزید کہا کہ وہ ایک پیشہ ور سپاہی ہیں اور وہ اپنی فوج کو پیشہ ورانہ رکھنا چاہتے ہیں۔
جنرل وقار الزمان نے مزید تفصیلات فراہم کیے بغیر کہا کہ شیخ حسینہ واجد کی برطرفی کے بعد تجویز کردہ وسیع حکومتی اصلاحات کے مطابق، فوج بھی اپنے اہلکاروں کے غلط کاموں کے الزامات کو دیکھ رہی ہے جبکہ اس ضمن میں کچھ فوجیوں کو سزا بھی دی جا چکی ہے۔
بنگلہ دیشی آرمی چیف نے کہا کہ اگر کوئی حاضر سروس فوجی قصوروار پایا جاتا ہے تو وہ یقینی طور پر اس کے خلاف کارروائی کریں گے، مزید کہا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ فوجی حکام نے ماضی میں سابق وزیراعظم یا وزیر داخلہ کے براہ راست کنٹرول والی ایجنسیوں میں کام کرتے ہوئے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہو۔
واضح رہے کہ عبوری حکومت نے ہائی کورٹ کے ایک سابق جج کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیشن تشکیل دیا ہے، جو 2009 سے لے کر اب تک بنگلہ دیش کی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 600 ’جبری طور پر لاپتا‘ کیے گئے افراد کی رپورٹس کی تحقیقات کر رہا ہے۔
تاہم، طویل دورانیہ میں جنرل وقار الزمان ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد اہلکاروں پر مشتمل اور اقوام متحدہ کے امن مشنوں میں ایک اہم شراکت دار بنگلہ دیشی فوج کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسا صرف تب ہی ممکن ہے جب صدر اور وزیراعظم کے درمیان طاقت کا توازن برقرار رہے اور مسلح افواج کو براہ راست صدر کے ماتحت کیا جاسکے۔
بنگلہ دیش کے آرمی چیف کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر فوج کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے اور نہ ہی فوجی کو سیاست میں آنا چاہیے۔