بنگلہ دیش کے عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی معزولی کے بعد ایک انٹرویو میں بنگلہ دیش میں عام انتخابات کی مدت کے حوالے سے مقررہ وقت دینے سے انکار کرتے ہوئے ملک میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 84 سالہ نوبل انعام یافتہ محمد یونس بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ہیں جو ملک میں جمہوری اداروں کی بحالی کے انتہائی سخت مسائل سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بنگلہ دیشی اخبار کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی طویل عرصے تک حکومت میں نہیں رہنا چاہتا، ملک میں اصلاحات ضروری ہیں، اگر آپ کہتے ہیں کہ الیکشن کرائیں تو ہم تیار ہیں لیکن اصلاحات سے قبل الیکشن کرانا غلط فیصلہ ہوگا۔
محمد یونس کا کہنا تھا کہ انہیں ورثے میں ایک مکمل تباہ حال سسٹم ملا جسے مستقبل میں آمریت کی طرف واپسی سے بچانے کے لیے جامع تبدیلی کی ضرورت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اصلاحات کا مطلب ہے کہ ہم ماضی میں جو ہوا اسے دہرانے نہیں دیں گے۔
عبوری حکومت کے سربراہ نے شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد قتل کے الزام میں گرفتار ان کے حامی، متعدد سیاست دانوں اور سینئر پولیس افسران کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
شیخ حسینہ واجد کے دور حکومت کی اہم شخصیات کی گرفتاری نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ عبوری حکومت ان کا سیاسی ٹرائل کرے گی۔
تاہم محمد یونس نے کہا ہے کہ گرفتار افراد کے خلاف کسی بھی قسم کے فوجداری ٹرائل میں حکومتی مداخلت شامل نہیں ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالتی نظام میں ایک دفعہ اصلاحات ہونے کے بعد یہ بات واضح ہو گی کہ کس کا ٹرائل کرنا ہے اور اس کا طریقہ کار کیا ہوگا۔
واضح رہے کہ شیخ حسینہ واجد کی معزولی کے بعد 25 صحافی جنہیں ان کا حامی سمجھا جاتا ہے انہیں مبینہ طور پر مظاہرین کے خلاف تشدد کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
صحافیوں کے لیے کام کرنے والی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نےگرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں منظم عدالتی ہراسانی قرار دیا ہے۔
مزید برآں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے اس بات پر زور دیا کہ وہ میڈیا کی آزادی چاہتے ہیں۔