چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ حکومت 25 اکتوبر سے قبل آئینی ترمیم منظور کرا لے گی۔
زرداری ہاؤس اسلام آباد میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آئینی ترمیم کے لیے ٹائم لائن کا مسئلہ نہیں ہے، حکومت جلدی گھبرا جاتی ہے، سیاست میں جو ڈر گیا وہ مر گیا، 25 اکتوبر سے قبل ترمیم منظور کرالی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ چیف جسٹس کون ہو گا، نہ ہی ترمیم کے لیے کوئی ڈیڈلائن ہے، تاہم اس بات سے ضرور فرق پڑتا ہے کہ کسی بھی چیف جسٹس کا طرز عمل افتخار چوہدری جیسا نہیں ہونا چاہیے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن آئینی عدالت اور عدالتی اصلاحات سے متفق ہیں، تاہم ترمیم کے مسودوں پر مشاورت جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی نظر میں صوبوں میں بھی آئینی عدالتیں ہونی چاہئیں، اعلیٰ عدالتوں میں تقرریاں بھی عدلیہ، پارلیمنٹ اور وکلا کی متناسب نمائندگی سے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت آرٹیکل 8 اور 51 میں ترمیم چاہتی تھی جسے پی پی اور جے یو آئی نے رد کیا۔
بانی پی ٹی آئی سے متعلق چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ عمران خان آج بھی سیاستدانوں کے بجائے اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں، اگر وہ سیاسی فیصلے کرتے تو آج بھی وزیر اعظم ہوتے، اب ان کا مستقبل روشن نہیں ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کی کوشش تھی کہ آئینی ترامیم پر مولانا سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلا جائے،جے یو آئی کا ڈرافٹ آئے گا تو بیٹھ کر دیکھیں گے،بات چیت کے بعد جو سامنے آئے گا وہ ترمیم لائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے مجوزہ آئینی ترمیم پاس کرانے لیے ٹائم لائن کا مسلہ نہیں، البتہ حکومت کےلیے ہو سکتی ہے، بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آئینی عدالتوں اور عدالتی اصلاحات پرمولانا مان گئے تھے۔ حکومت آرٹیکل 8اور آرٹیکل 51میں فوجی عدالتوں اور مخصوص نشستوں سے متعلق ترامیم لے آئی جس پر پیپلز پارٹی نے فوجی عدالتوں اور مخصوص نشستوں پر ترمیم سے انکار کردیا۔
انہوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے عدالتوں کا چھٹی کے دن آرڈر آیا جس کا چیف جسٹس کو بھی علم نہیں تھا، ہم عدالتی اصلاحات چاہتے ہیں اور صوبوں کے مساوی حقوق چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں مرکز کے ساتھ ساتھ صوبوں میں بھی آئینی عدالتیں قائم ہوں اس سے عوام کو فوری ریلیف ملے گا۔
چییئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ صوبوں میں آئینی عدالتوں والا معاملہ آج طے نہ بھی ہوا تو یقین ہے ایک دن ضرور ہوگا، بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اعلی عدالتوں میں تقرریاں عدلیہ ، پارلیمنٹ اور وکلاء کی نمائندہ کمیٹی کے ذریعے ہونی چائیں، جو مرضی چیف جسٹس آجائے ہمیں فرق نہیں پڑتا لیکن افتخار چوہدری جیسا طرز عمل نہیں ہونا چاہیے، جسٹس منیب نے 63اے کے فیصلے میں اپنا ذہن واضح کر دیا ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی اور اس کی جماعت کو ہر ایشو موقع دیا لیکن انہوں نے غیر سنجیدگی دکھائی، بانی پی ٹی آئی اگر اپریل 2022سے سیاسی فیصلے کرتے تو آج وہ دوبارہ وزیر اعظم ہوتے،بانی پی ٹی آئی آج بھی سیاستدانوں سے نہیں اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتا ہے، مجھے تو عمران کا کوئی سیاسی مستقبل روشن نظر نہیں آتا، ہم نے سیاسی اتفاق رائے کےلیے کمیٹی بنائی پی ٹی آئی نے اس کا بھی بائیکاٹ کردیا، جب تک نیب ہوگا ملک میں سیاسی انجنئیرنگ ہوتی رہے گی۔