بھارت اور کینیڈا کے درمیان خالصتان تحریک کے حامی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجرکے قتل کیس میں سفارتی تنازع شدت اختیار کرگیا، دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت کر دی۔
کینیڈین حکومت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پولیس کو 6 بھارتی سفارتکاروں کے خلاف شواہد ملے ہیں کہ وہ ’پرتشدد بھارتی مہم‘ میں ملوث تھے جس کی وجہ سے انہیں ملک بدر کیا جارہا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق کینیڈا حکومت کے اس فیصلے کے فوراً بعد بھارت نے بھی کینیڈا کے قائم مقام ہائی کمشنر، ڈپٹی ہائی کمشنر اور 4 فرسٹ سیکریٹریز کو فوری طور پر بھارت چھوڑنے کی ہدایت کردی۔
قبل ازیں، نئی دلی نے کینیڈین حکومت کی جانب سے خالصتان تحریک کے حامی سکھ رہنما کے قتل میں بھارتی سفارتکاروں کو شامل تفتیش کرنے کے فیصلے کی شدید مذمت کی۔
بھارتی وزارت خارجہ نے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو سے مطالبہ کیا کہ وہ ان سکھ رہنماؤں پر توجہ دیں جو ایک آزاد وطن کا مطالبہ کرتے ہیں جسے وہ خالصتان یا پاک سرزمین کہتے ہیں تاہم بھارت انہیں انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دیتا ہے۔
کینیڈا نے مبینہ طور پر بھارتی انٹیلی جنس کے کہنے پر سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث ہونے کے شبہ میں ہائی کمشنر سنجے کمار ورما اور کچھ نامعلوم عہدیداروں کو نامزد کیا۔
کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب کے دوران بھارت پر سکھ رہنما کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا تاہم بھارت نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
رپورٹس کے مطابق اپنے سکھ شہری کو قتل کرنے کی سازش کی امریکی تحقیقات نے کینیڈین کیس میں مدد فراہم کی ہے۔
گزشتہ ماہ نیویارک کی ایک ضلعی عدالت نے امریکی جاسوس کی جانب سے بے نقاب کیے گئے سکھ رہنما کے قتل کی سازش سے متعلق بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول، بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ سمنت گوئل کو نامزد کیا تھا۔
اس سازش میں نیو جرسی میں مقیم خالصتان تحریک کے رہنما گروپتونت پنون کو نشانہ بنایا جانا تھا۔
یاد رہے کہ اجیت ڈوول وزیر اعظم نریندر مودی کابینہ کے اہم ترین رکن ہیں لیکن وہ گزشتہ ماہ بھارتی رہنماؤں کے دورہ امریکا میں شامل نہیں تھے۔
وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ’ہمیں کل کینیڈا سے ایک سفارتی خط موصول ہوا جس میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستانی ہائی کمشنر اور دیگر سفارت کار ہمارے ملک میں ایک قتل کی تحقیقات میں شامل تفتیش کیا جارہا ہے‘۔
’بھارتی حکومت ان مضحکہ خیز الزامات کو سختی سے مسترد کرتی ہے اور انہیں ٹروڈو حکومت کے سیاسی ایجنڈے سے منسوب کرتی ہے جو ووٹ بینک کی سیاست کے گرد مرکوز ہے۔‘
وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ کینیڈا کی حکومت نے بھارت کے ساتھ کوئی ثبوت شیئر نہیں کیا۔
اس سے قبل 3 مئی کو کینیڈین پولیس نے گرفتاریوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے الزام میں 3 بھارتی شہریوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے جن میں 22سالہ کرن برار، 22 سالہ کمل پریت سنگھ اور 28 سالہ کرن پریت سنگھ شامل ہیں۔
یاد رہے کہ 1997 میں کینیڈا ہجرت کرنے والے ہردیپ سنگھ نجر نے ایک علیحدہ سکھ ریاست خالصتان کے حمایتی تھے۔
وہ بھارتی حکام کو مبینہ طور پر دہشتگردی اور قتل کی سازش کے لیے مطلوب تھے تاہم سکھ رہنما نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
45 سالہ ہردیپ سنگھ نجر کو گزشتہ سال جون میں سکھوں کی سب سے بڑی آبادی والے شہر وینکوور کے مضافاتی علاقے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ہردیپ سنگھ کے قتل میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی کشیدگی بڑھ گئی۔
جب کہ بھارتی نے اس الزام کی سختی سے تردید کی تھی۔