بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے جلاوطن سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا حکم دے دیا، جو اگست میں طالب علم کی قیادت میں ہونے والے انقلاب کے بعد اقتدار چھوڑ کر بھارت فرار ہو گئی تھیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بنگلہ دیش انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے چیف پراسیکیوٹر محمد تاج الاسلام نے صحافیوں کو بتایا کہ عدالت نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو گرفتار کرکے 18 نومبر تک پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
حسینہ واجد کے 15 سالہ دور حکومت میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں، جن میں ان کے سیاسی مخالفین کی بڑے پیمانے پر حراست اور ماورائے عدالت قتل شامل ہیں۔
محمد تاج الاسلام نے ’یادگار دن‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ شیخ حسینہ واجد کے دور حکومت میں جولائی سے اگست کے دوران قتل و غارت اور انسانیت کے خلاف جرائم کیے گئے۔
77 سالہ شیخ حسینہ واجد کو بنگلہ دیش سے فرار ہونے کے بعد سے نہیں دیکھا گیا اور ان کا آخری سرکاری ٹھکانا بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کے قریب ایک فوجی ایئربیس ہے۔
بھارت میں ان کی موجودگی نے بنگلہ دیش میں شہریوں کو مشتعل کردیا ہے۔
ڈھاکا نے ان کا شیخ حسینہ واجد کا سفارتی پاسپورٹ منسوخ کر دیا تھا جبکہ دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ حوالگی کا معاہدہ ہے جو مجرمانہ مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے واپس لانے کی اجازت دے گا۔
تاہم معاہدے کی ایک شق کے مطابق اگر جرم ’سیاسی نوعیت‘ کا ہو تو حوالگی کو مسترد کیا جاسکتا ہے۔
حسینہ کی حکومت نے 1971 میں علیحدگی کے دوران ہونے والے مظالم کی تحقیقات کے لیے 2010 میں متنازع آئی سی ٹی بنایا۔
اقوام متحدہ اور حقوق کے گروپوں نے اس کے طریقہ کار کی کوتاہیوں پر تنقید کی، اور اسے بڑے پیمانے پر شیخ حسینہ واجد کے سیاسی مخالفین کو ختم کرنے کے ایک ذریعے کے طور پر دیکھا جانے لگا۔