سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کا تختہ الٹنے والے انقلابی تحریک کے رہنماؤں نے بنگلہ دیشی صدر محمد شہاب الدین پر استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ بڑھا دیا۔
خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق 74 سالہ محمد شہاب الدین کو 2023 میں عوامی لیگ نے پارلیمان کے ذریعے صدر منتخب کیا تھا، تاہم انہیں صدر کے اعزازی عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد ملک میں آئینی بحران کا خدشہ پیدا ہوسکتا ہے۔
عبوری حکومت کے میڈیا ترجمان شفیق العالم نے کہا کہ صدر کی برطرفی کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ سیاسی اتفاق رائے سے کیا جائے گا۔
دریں اثنا، حکومتی ترجمان اور وزیراعظم محمد یونس کی کابینہ میں وزیر سیدہ رضوانہ حسن نے صدر محمد شہباب الدین کو ہٹانے کے حوالے سے بات چیت کی تصدیق کی ہے۔
سیدہ رضوانہ حسن نے صحافیوں کو بتایا کہ ’اس بات پر لازمی غور کیا جائے کہ انقلاب کے بعد بننے والی حکومت میں ایسے صدر کو برقرار رکھنا چاہیے جسے ایک آمرانہ حکومت نے منتخب کیا ہو، ان کی برطرفی کا مطالبہ تحریک کے نظریے سے مطابقت نہ رکھنے کے دعوے کی وجہ سے کیا جارہا ہے۔‘
اس ماہ کے اوائل میں محمد شہاب الدین نے ایک بیان میں شیخ حسینہ واجد کے استعفیٰ نہ دینے کا دعویٰ کیا تھا جس کے بعد ملک میں شدید احتجاج کیا گیا تھا۔
صدر کے اس بیان کے فوری بعد عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کی کابینہ میں خدمات انجام دینے والے طلبہ رہنما آصف نذرل نے ان کے بیان کو عہدے کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سیکڑوں افراد کی صدارتی کمپاؤنڈ میں داخلے کے دوران پولیس سے جھڑپ ہوگئی تھی جس میں 30 افسران اور کئی مظاہرین زخمی ہوئے تھے۔
بنگلہ دیشی صدر کے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے والوں کی راہ میں کئی آئینی پیچیدگیاں حائل ہیں۔
صدر کا مواخذہ کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت درکار ہے جس کے بعد اسپیکر عہدہ سنبھالیں گے۔
تاہم شیخ حسینہ واجد کی معزولی کے بعد پارلیمنٹ معطل ہو گئی تھی جس کے بعد صدر کو ہٹانے اور نئے صدر کے انتخاب کے عمل پر سوالیہ نشان ہے۔
دوسری طرف بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے جنرل سیکریٹری مرزا فخرالاسلام عالمگیر نے کہا ہے کہ اگر ہم تحریک کے نتائج کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو ہمیں ایسے فیصلے نہیں کرنے چاہئیں جس سے ملک میں ایک آئینی بحران پیدا ہو جائے۔
سابق وزیراعظم کے دور اقتدار کے دوران احتجاج کرنے والے گروپ کے کنوینر حسنات عبداللہ نے کہا کہ صرف بی این پی کی جانب سے ان کی برطرفی کی مخالفت کی گئی، ہم اس صورتحال کو زیادہ دیر تک ٹالنا نہیں چاہتے اور فوری فیصلے کا مطالبہ کرتے ہیں۔