پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے باضابطہ طور پر ججز تقرری کمیشن کا حصہ بننے کا فیصلہ کرلیا، جوڈیشل کمیشن میں اپوزیشن کی نمائندگی کیلئے دو ناموں کا اعلان عمران خان کی منظوری کے بعد ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کے خصوصی اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا۔
اعلامیہ کے مطابق پی ٹی آئی نے باضابطہ طور پر ’جوڈیشل کمیشن آف پاکستان‘ کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ جوڈیشیل کمیشن کیلئے پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے اراکین نامزد کرنے پر اتّفاق کیا گیا۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ سیاسی کمیٹی اجلاس میں جوڈیشل کمیشن کیلئے اپوزیشن کی جانب سے دو اراکین کی نامزدگیوں اور اس حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی کے خط پر جامع بریفنگ دی گئی۔
بریفنگ میں کہا گیا کہ 13 اراکین پر مشتمل جوڈیشل کمیشن کی ذمہ داریوں میں اضافہ کیا گیا ہے، جوڈیشیل کمیشن سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ میں ججز کی تقرریاں کرے گا۔
اجلاس کے شرکا کو بتایا گیا کہ جوڈیشل کمیشن ہائی کورٹ کے ججز کی کارکردگی پر نگاہ رکھے گا اور ان کی سالانہ کارکردگی رپورٹ مرتب کرے گا جب کہ کمیشن ہائی کورٹ کے ججز کیلئے موزوں ناموں کی تجاویز بھی پیش کرنے کا مجاز ہے۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ یہی جیوڈیشل کمیشن ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بینچز بھی قائم کرے گا، کمیشن کے اراکین کی ایک تہائی تعداد کمیشن کا اجلاس طلب کرسکتی ہے جب کہ 13 رکنی کمیشن کے فیصلے اراکین کی سادہ اکثریت سے ہوں گے۔
پی ٹی آئی سیاسی کمیٹی کو بتایا گیا کہ کلاز ڈی کے مطابق کسی رکن کی عدم موجودگی کمیشن کے فیصلے کی ساکھ متاثر نہیں کرسکے گی اور عدم موجودگی کے باوجود کمیشن کا فیصلہ ٹھیک تصور کیا جائے گا۔
بریفنگ میں کہا گیا کہ جوڈیشیل کمیشن آف پاکستان ایک طویل المدت کمیشن ہوگا، کمیشن کی فیصلہ سازی میں حزب اختلاف کے دو اراکین کا کردار نہایت کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
بعد ازاں، پی ٹی آئی سیاسی کمیٹی کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کا حصہ بننے کی تجویز متفقہ طور پر منظور کرلی گئی، سیاسی کمیٹی کے اس فیصلے کو توثیق کیلئے کور کمیٹی اور حتمی منظوری کیلئے بانی چیئرمین عمران خان کے روبرو پیش کیا جائے گا۔
کمیشن میں حزبِ اختلاف کی نمائندگی کیلئے مجوّزہ دو ناموں کی عمران خان سے باضابطہ منظوری کے بعد اعلان پر مکمل اتفاق کیا گیا۔
علاوہ ازیں، اجلاس میں 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے پارٹی کے دوٹوک اور اصولی مؤقف کا بھی اعادہ کیا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب کیا گیا ہے، اس سے قبل الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ کا سب سے سینیئر جج ہی ملک کا چیف جسٹس ہوتا تھا۔
26ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل جسٹس منصور علی شاہ کو سنیارٹی اصول کے تحت اگلا چیف جسٹس پاکستان بننا تھے تاہم 22 اکتوبر کو چیف جسٹس آف پاکستان کے تقرر کے لیے قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی اکثریت نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو اگلا چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کردیا تھا۔
26ویں آئینی ترمیم میں سب سے زیادہ ترامیم آرٹیکل 175۔اے میں کی گئی ہیں، جو سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ میں ججوں کی تقرری کے عمل سے متعلق ہے۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان دراصل سپریم کورٹ ہائی کورٹ، یا فیڈرل شریعت کورٹ کے ججوں کی ہر اسامی کے لیے اپنی نام زدگیوں کو 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجتا تھا جو یہ نام وزیر اعظم کو اور پھر وہ صدر کو ارسال کرتے تھے تاہم ترمیم کے بعد کمیشن اب اپنی نامزدگیوں کو براہ راست وزیر اعظم کو بھیجے گا جو انہیں تقرری کے لیے صدر کو بھیجیں گے۔
ترمیم کے بعد خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں قومی اسمبلی سے 8 اور سینیٹ کے 4 ارکان شامل ہوں گے، سیاسی جماعتوں کو ارکان اسمبلی کی بنیاد پر کمیٹی میں متناسب نمائندگی حاصل ہو گی، جنہیں ان کے متعلقہ پارلیمانی لیڈر نامزد کریں گے۔