خیبر پختونخوا حکومت نے خبردار کیا ہے کہ وہ وفاق کے زیر انتظامی قبائلی علاقوں (قبائلی اضلاع) کے صوبے میں انضمام کے بعد صوبے کی آبادی اور غربت کی سطح میں تبدیلیوں پر 7ویں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) میں مزید توسیع پر رضامند نہیں ہوگی۔
نجی جریدے کی رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے خزانہ مزمل اسلم نے بتایا ہے کہ ہم نے این ایف سی کے معاملے پر وفاقی وزارت خزانہ سے فون کالز اور خطوط سمیت متعدد رابطے کیے لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ صوبائی حکومت کے بجٹ میں سرپلس رکھا گیا ہے لیکن وہ این ایف سی ایوارڈ میں اپنا حصہ نہیں چھوڑے گی۔
محکمہ خزانہ نے وزارت خزانہ ایک خطہ میں آگاہ کیا کہ 2018 میں وفاق اور صوبائی زیر انتظام قبائلی علاقوں کے اس میں انضمام کے بعد صوبے کو مالی مسائل کا سامنا ہے۔
خط میں شکایت کی گئی ہے کہ فاٹا اور خیبرپختونخوا کے انضمام کے بعد سے تقریبا 6 سالوں سے ضم شدہ اضلاع کے 61 لاکھ سے زائد رہائشیوں کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت بین الحکومتی فنڈز کی منتقلی کے طریقہ کار میں جگہ نہیں دی گئی۔
صوبائی محکمہ کی جانب سے خط میں مزید کہا گیا کہ وزیر اعلیٰ علی امین خان گنڈاپور نے 5 ستمبر کو قبائلی جرگے میں 25 ویں آئینی ترمیم کے بعد قبائلی اضلاع کے رہائشیوں کو درپیش مسائل کو اجاگر کیا۔
جرگے میں دیگر مالی اور انتظامی امور پر بات چیت کے علاوہ وفاقی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے فاٹا کے انضمام کے بعد قومی وسائل میں صوبے کے حصے کے فنڈز کی بروقت فراہمی کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا۔
خط میں کہا گیا کہ قانونی فریم ورک نے این ایف سی کو ایک اہم فورم بنادیا جو وفاقی ڈھانچے کی ایک مضبوط خصوصیت ہے لیکن یہ نوٹ کیا گیا ہے کہ مسلسل مشاورت کے مطلوبہ عمل کو عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔
صوبائی وزارت خزانہ کی جانب سے بھیجے گئے خط کے مطابق یہ ہمارے علم میں ہے کہ 25 ویں آئینی ترمیم مرکزی دھارے کی بنیاد پر ہے اور ملکی تاریخ کے ابتدائی 70 سالوں میں ان علاقوں کو درپیش تاریخی ترقیاتی تعطل کو دور کرنے کے حوالے سے ہے لیکن اس صوبے کو دیا گیا ٹاسک نہ صرف مشکل بلکہ ہماری موجودہ مالی استعداد سے بھی باہر ہے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے اس ’مشکل کام‘ کے لیے ادائیگی کا وعدہ کیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ ’عزم‘ برسوں سے ختم ہو چکا ہے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ 7ویں این ایف سی ایوارڈ میں فاٹا کے لیے کوئی مخصوص رقم مختص نہیں کی گئی حالانکہ یہ وفاق کے زیر انتظام علاقہ رہا ہے جب کہ ایوارڈ میں بلوچستان کے لیے زیادہ رقم مختص کی گئی ہے اور فارمولے میں دیگر صوبوں کی مختلف ضروریات کو تسلیم کیا گیا ہے۔
خط میں محکمہ خزانہ نے شکایت کی ہے کہ اگرچہ چاروں صوبوں کو 7ویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت زیادہ فنڈز ملنے لگے ہیں لیکن فاٹا کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت بہت کم سرمایہ کاری ملی ہے جس کی وجہ سے خطے میں ترقی اور روزگار کے مواقع میں کمی آئی ہے۔
صوبائی محکمہ خزانہ نے وفاقی وزارت خزانہ سے این ایف سی کا اجلاس بلانے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی تشویش کی بات ہے کہ 7واں این ایف سی ایوارڈ آئین کے مطابق نہیں ہے۔