پاکستان، چین اور قطر کے بعد ازبکستان کے طالبان رہنماؤں کے ساتھ سب سے زیادہ اچھے اور قریبی تعلقات ہیں۔
ازبک وزارت خارجہ کے مطابق طالبان نمائندوں کے ساتھ تازہ ترین بات چیت ازبکستان کے شہرترمذ میں ہوئی جس میں تجارت اور اقتصادی مذاکرات سمیت اور سلامتی کو یقینی بنانے پر بات چیت ہوئی۔
جس میں طالبان وفد کی قیادت افغان نائب وزیر اعظم عبدالسلام حنفی اور ازبکستان کی جانب سے ان کے ہم منصب سردار عمرزاکوف نے کی۔اگست میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان اپنی حکومت کو تسلیم کرانے کی کوشش میں مختلف ممالک کا دورہ کر رہے ہیں ۔
افغانستان ازبکستان کے لیے ضروری کیوں؟
افغانستان پر طالبان کے اقتدار کو دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن اس کے ہمسائیوں سمیت دنیا کے کسی بھی ملک نے ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ افغانستان کے ساتھ 160 کلومیٹر کی سرحد رکھنے والا ملک ازبکستان نے عندیہ دیا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ
Acting Foreign Minister Amir Khan Muttaqi met with Erzhan Kazykhanov, Kazakhstan President’s Special Representative for International Cooperation, on Sunday, the foreign ministry spox said, adding both sides discussed trade relations and economic cooperation.#TOLOnews pic.twitter.com/l47baJfubf
— TOLOnews (@TOLOnews) October 18, 2021
بات چیت اور تجارت کرنے کے لیے تیار ہے۔
افغانستان ازبکستان سے بجلی درآمد کرنے کے علاوہ مزار شریف اور ہراتان کے تجارتی مراکز بھی افغانستان کی سب سے اہم اقتصادی شریانیں ہیں، جو ازبکستان سے ملتی ہیں۔ طالبان کو افغانستان پر قبضہ کیے ہوئے دو ماہ سے بھی کم عرصہ ہوا ہے، لیکن اس دوران ازبک حکام اور طالبان رہنماؤں کے درمیان کئی رابطے اور ملاقاتیں ہوئیں۔ پاکستان اور ازبکستان ان پہلے ممالک میں شامل تھے جنہوں نے سابقہ افغان حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان کو امدادی کھیپ بھیج کر طالبان کے ساتھ خیر سگالی کا مظاہرہ کیا۔ 12 ستمبر کو ازبکستان نے 1300 ٹن خوراک کی کھیپ مزار شریف بھیجی، ازبک صدر کے خصوصی ایلچی عصمت اللہ یرگشیف کے ساتھ بلخ میں طالبان کے گورنر قدرت اللہ حمزہ کو امداد دی گئی۔