امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی یہ پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ افغانستان کی کیا صورتحال نکلے گی، ہم صرف امید کر سکتے ہیں کہ وہاں 40 سال بعد امن قائم ہو، طالبان نے کہا کہ وہ ایک جامع حکومت چاہتے ہیں، وہ اپنے خیالات کے مطابق خواتین کو حقوق دینا چاہتے ہیں، وہ انسانی حقوق کی فراہمی چاہتے ہیں، انہوں نے عام معافی کا اعلان کیا ہے تو یہ سب چیزیں اس بات کا عندیہ دیتی ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ عالمی برادری انہیں تسلیم کرے۔ افغان خواتین مضبوط ہیں، انہیں وقت دیں، وہ خود اپنے حقوق حاصل کریں گی۔ افغانستان کو باہر سے کنٹرول کرنے کا سوچنے کی بجائے عالمی برادری کو ان کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ افغانستان کی موجودہ حکومت یہ محسوس کرتی ہے کہ عالمی معاونت اور امداد کے بغیر وہ مسائل پر قابو نہیں پا سکیں گے۔ افغانستان کی صورتحال پریشان کن ہے اور وہ اس وقت ایک تاریخی موڑ پر ہے، اگر طالبان پورے افغانستان پر کنٹرول کے بعد ایک جامع حکومت کے قیام کیلئے کام کرتے ہیں اور تمام گرپوں کو ملاتے ہیں تو افغانستان میں 40 سال بعد امن قائم ہو سکتا ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو سکا تو اس سے افراتفری پھیلے گی، انسانی بحران جنم لے گا جس سے مہاجرین کا بڑا مسئلہ پیدا ہو گا اور یہ عوامل افغانستان کو غیر مستحکم کریں گے۔ غیر مستحکم افغانستان سے دوبارہ دہشت گردی کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
صدر بائیڈن مصروف آدمی ہیں
امریکی صدر کیساتھ ٹیلیفونک رابطہ نہ ہونے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن مصروف آدمی ہیں، آپ ان سے ہی پوچھیں کیا کہ وہ اتنے مصروف ہیں کہ ایک کال بھی نہیں کر سکتے۔
میں وزیراعظم ہوتا تو نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ نہ بنتا، وزیراعظم
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد امریکا کا اتحادی بننے کی وجہ سے پاکستان نے بہت کچھ بھگتا ہے، امریکا کو افغانستان میں ہماری ضرورت تھی، جارج بش نے پاکستان سے مدد طلب کی اور اس کہا تھا کہ ہم پاکستان کو دوبارہ تنہا نہیں چھوڑیں گے، پاکستان امریکا کی جنگ کا حصہ بن گیا، اگر میں وزیر اعظم ہوتا تو میں کبھی ایسا نہ کرتا۔ 80 کی دہائی میں پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف امریکا کا ساتھ دیا، ہم نے مجاہدین کو تربیت دی تاکہ وہ افغانستان میں جہاد کر سکیں ان مجاہدین میں القاعدہ اور طالبان شامل تھے اور اس وقت یہ ایک مقدس کام تصور کیا جاتا تھا۔ پہلے وہ مجاہدین تھے لیکن بعد میں ہم انہیں دہشت گرد کہہ رہے تھے کیونکہ امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا ہے تو اب آپ کے کام دہشت گردی ہیں، وہ ہمارے مخالف ہو گئے اور پاکستان کے تمام قبائل اور پشتون آبادی بھی طالبان کے حق میں ہو گئی اور اس کی وجہ مذہب نہیں بلکہ یہ تھی کہ وہ بھی پشتون تھے۔
ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ جنگ میں کسی ملک پر ان کے اپنے ہی اتحادی نےڈرون حملے کئے ہوں، وزیراعظم
امریکا کا ساتھ دینے کے نتیجے میں جہادی ہمارے خلاف ہو گئے، پشتون ہمارے خلاف کھڑے ہو گئے اور ہم نے شہری علاقوں میں جتنے زیادہ فوجی آپریشنز کیے تو اس کے اتنے ہی زیادہ نقصانات ہوئے اور ایک وقت میں 50 شدت پسند گروپ پاکستان پر حملہ آور تھے۔ ان گروپس کے حملوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں 480 امریکی ڈرون حملے ہوئے اور یہ پہلا موقع تھا کہ کسی جنگ میں کسی ملک پر اس کے اپنے ہی اتحادی نے حملہ کیا ہو۔ پاکستان کا 22 کروڑ عوام کے لیے 50 ارب ڈالر کا بجٹ ہے اور امریکی وہاں 30 کروڑ ڈالر یومیہ سے زیادہ خرچ کررہے تھے اور 2 کھرب ڈالر سے زائد خرچ کیے، کیا ہمارے پاس اتنی استعداد تھی کہ ہم ایک اور جنگ کی فنڈنگ کرتے۔ امریکا نے ہمیں سویلین امداد کی مد میں 9 ارب ڈالر اور 11 ارب ڈالر فوجی امداد کی مد میں دیے اور ہماری حالت ایک کرائے کی بندوق جیسی تھی، ہم سے توقع یہ رکھی گئی کہ ہم امریکا کو افغانستان میں جنگ جتوائیں جو ہم کبھی نہیں کر سکتے تھے۔ پاکستان میں عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ امریکا کی جنگ کا حصہ بننے کی وجہ سے یہاں جگہ جگہ بم دھماکے ہو رہے ہیں، بے نظیر بھٹو اس کی وجہ سے ماری گئیں، ہماری معیشت کو 150ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔
سی آئی اے کو بھی طالبان سے بات کرنا پڑے گی، وزیراعظم
آئی ایس آئی کے افغان طالبان سے روابط کے متعلق سوال پرانہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں سب سے رابطے رکھتی ہیں، یہی ان کا کام ہے، امریکی سی آئی اے افغان طالبان سے بات کرے گی کیونکہ انہیں بات کرنی پڑے گی۔
امریکہ کے ساتھ ایسے تعلقات چاہتے ہیں جیسے انکے بھارت کے ساتھ ہیں، وزیراعظم
امریکہ کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کے متعلق سوال پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ میں امریکا سے اسی طرح کا تعلق چاہتا ہوں جیسا ان کا بھارت سے ہے، یکطرفہ تعلق نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ہمیں صرف جنگ کے لیے پیسے دے رہے ہوں، ہم نارمل تعلقات چاہتے ہیں۔
وزیراعظم نے پاکستانی سرزمین پر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ پاک۔افغان سرحد پر ڈرون طیاروں سے سخت نگرانی کی جاتی رہی ہے، میں دوسروں کی جنگ لڑ کر اپنے ملک کو تباہ کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا اور بطور وزیراعظم میری ذمہ داری اپنے ملک کے لوگوں کی خدمت کرنا ہے۔