امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کی سماعت میں ریپبلکن پارٹی کے قانون سازوں نے افغانستان کی موجودہ صورتحال کو لیکر صدربائیڈن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں طالبان کے افغانستان پر قبضے کا ذمہ دارٹھہرایا۔ دیگر ریپبلکن کے سینیٹرز نے اس دوران صدربائیڈن کے ساتھ پاکستان پر بھی تنقید کی۔ ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے ڈیموکریٹ سینیٹر کرس وین نے وزیر خارجہ انتونی بلنکن کے مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا کہ
- کیا یہ حقیقت نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستانی حکومت سے کہا کہ تھا وہ اس عمل کے ایک حصے کے طور پر تین اعلیٰ طالبان کمانڈروں کو رہا کرے؟
- کیا ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان کے ساتھ اتفاق نہیں کیا تھا کہ امریکی افواج مئی 2021ء تک افغانستان سے نکل جائیں گی اور ان پر حملہ نہ کرنے کی گارنٹی لی گئی تھی، لیکن افغان فورسز پر حملے کرنے پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تھی؟
- کرس وین نےعبدالغنی برادر کے رہا ہونے والوں میں شامل ہونے، دوحہ مذاکرات میں غنی حکومت کو شامل نہ کرنے اور ان پر پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کیلئے دباؤ ڈالنے سمیت کئی سوالات کئے
- سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر جو بائیڈن پر بھی مئی تک افواج نہ نکالنے پر تنقید کی تھی جیسا کہ امریکا طالبان معاہدے میں طے پایا تھا
امریکی وزیر خارجہ نے کرس وین کے سوالات پر کہا کہ “آپ درست کہہ رہے ہیں”
پاکستان کے متعلق بات کرتے ہوئے سینیٹر کرس وین کا کہنا تھا کہ پاکستان سے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا ہم نے کہا تھا، پھر ہمیں ان پر نظر بھی رکھنی چاہیے تھی۔
قانون سازوں کی پاکستان اور جو بائیڈن انتظامیہ دونوں کے خلاف دشمنی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کانگریس میں سینیٹرز کا منافقانہ رویہ حیران کن ہے۔
انٹونی بلنکن نے کہا کہ امریکا چین، روس اور پاکستان جیسے ممالک سے آگاہ ہے جو افغانستان کی صورت حال کو حل کرنے کی کوشش میں اہم ہیں۔
کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر باب مینینڈیز کہا کہ ہمیں عالمی برادری پر زور دینا چاہیے کہ کوئی بھی ملک کو طالبان حکومت کو یکطرفہ طور پر تسلیم کرنے کے لیے جلدی نہ ککرے، انتظامیہ سے درخواست کریں کہ وہ افغانستان پر توجہ مرکوز رکھے اورہمیں پاکستان کے کردار کو سمجھنا چاہیے۔