مجوزہ بل کیلئے گلگت بلتستان اور قومی اسمبلی سےدرکار دو تہائی اکثریت کیلئے شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، علی امین گنڈاپور، علی محمد خان، گورنر جی بی راجا جلال اور وزیراعلیٰ جی بی خالد خورشید کو ٹاسک سونپنے اور اٹارنی جنرل پاکستان کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
مجوزہ آئینی ترمیمی بل میں آئین کی کچھ شقوں میں ترامیم اور کچھ شقوں کے اضافے کی تجاویز دی گئی ہیں
مجوزہ بل میں آئین کے آرٹیکل 51,59,106, 175A, 198, 218,240 اور 242 میں ترامیم جبکہ آرٹیکل 258A اور264A میں 2 شقوں کے اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔
آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم ایپلٹ کورٹ آف گلگت بلتستان کو ختم کیا جائے گا، چیف کورٹ آف گلگت بلتستان کو گلگت بلتستان ہائی کورٹ کا نام دیا جائے گا جس کے ججز کی تعداد 5 ہی رہے گی۔ گلگت بلتستان کے الیکشن کمیشن کو ختم کیا جائے گا اور اس کے ایک رکن کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کا حصہ بنایا جائے گا۔
آئین کی مجوزہ 26 ویں ترمیم میں گلگت بلتستان اسمبلی کیلئے 24 جنرل، 6 خواتین اور 3 ٹیکنوکریٹس سمیت 33 سیٹیں برقرار رکھنے جبکہ قومی اسمبلی میں 3 جنرل نشستوں اور خواتین کی ایک نشست سمیت 4 سیٹیں دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ سینیٹ میں دیگر صوبوں کے مساوی نشستیں رکھنے پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے وزیراعظم نے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی مشاورت سے 8 سیٹیں دینے کی تجویز دی ہے۔
آئینی ترمیمی بل کے ذریعے آئین میں 2 شقوں کا اضافہ کیوں کیا جا رہاہے؟
آئین میں شق 258A کے اضافے کیساتھ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بناتے ہوئے یہ واضح کیا جائے گا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں کشمیر کے عوام کیلئے آزادانہ اور شفاف استصواب رائے کے اصولی موقف پر قائم رہے گا۔
آرٹیکل 264A کے اضافے سے گورنمنٹ آف گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کا خاتمہ کیا جائے گا اور گلگت بلتستان کے اپنے پبلک سروس کمیشن کے قیام تک فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے کام کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔