افریقی ملک سوڈان میں فوج کی بغاوت کے بعد مظاہرے آج تیسرے روز بھی جاری ہیں، سوڈان میں مارشل لا کے خلاف اور جمہوریت کےحق میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔
فورسز نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس میں 3 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔ جمہوریت کے حامی گروہوں نے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کی کال دی تھی تاکہ معزول عبوری حکومت کی بحالی اور نظر بندی سینئیر سیاسی شخصیات کی رہائی کا مطالبہ کیا جا سکے۔دوسری جانب افواج کی جانب سے ملک کے وزیراعظم سمیت حکومت کے کئی سینئر عہدیداروں کو حراست میں لینے کے بعد دارالحکومت خرطوم میں عوامی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ فوج نے وزیراعظم عبداللہ حمدوک اور انکی اہلیہ کو انکے گھر پہنچادیا ہے۔
سوڈان کے طاقتور فوجی جنرل عبدالفتاح برہان نے دعویٰ کیا ہے کہ فوج کے قبضے کے باوجود جمہوریت کی منتقلی جاری رہے گی۔واضح رہے کہ جمہوریت کی طرف منتقلی کےاس عمل کاآغاز سنہ 2019 میں طویل عرصے سے مسلط آمر عمر البشیر کی معزولی کے بعد ہوا تھا۔اس کے بعد سے فوجی اور سویلین رہنماؤں نے ایک ناخوشگوار شراکت داری کے تحت حکومت کی ہے۔ جسے رواں ہفتے کے شروع میں مارشل لا نافذ کر کے ختم کر دیا گیا تھا۔تاہم فوجی جنرل عبدالفتاح برہان کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں جلد ایک ٹیکنو کریٹ حکومت قائم کریں گے۔ لیکن جمہوریت پسند جماعتیں جموہریت کی طرف پیش قدمی کو روکنے کی متحمل نہیں۔