اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ کا کہنا ہے کہ انہوں نے امریکی حکومت کو واضح کر دیا ہے کہ وہ بیت المقدس میں فلسطینیوں کیلئے امریکی قونصل خانہ کھولنے کی سخت مخالفت کریں گے۔
اسرائیلی وزیراعظم کا وزیر خارجہ یائر لیپڈ اور وزیر خزانہ ایوگڈور لیبرمین کےہمراہ ایک نیوز کانفرنس میں کہنا تھا کہ بیت المقدس میں فلسطینیوں کے کام آنے والے امریکی قونصل خانے کی کوئی جگہ نہیں، بیت المقدس صرف اسرائیل کا دارالحکومت ہے اور یہ ناقابل تقسیم ہے۔
اس موقع پر وزیر خارجہ یائر لیپڈ کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت اگر اپنا قونصل خانہ کھولنا چاہتی ہے تو وہ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں فلسطینی حکومت کے کمپاؤنڈ میں کھولا جا سکتا ہے۔
اسرائیلی حکام کے بیانات کو مسترد کرتے ہوئے فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو ردینہ نے کہا ہے کہ ہم صرف اس بات کو قبول کریں گے کہ امریکی قونصل خانہ بیت المقدس میں ہو جو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہے، امریکی انتظامیہ نے یہی اعلان کیا تھا اور وہ اس پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔
یاد رہے کہ مئی 2018ء میں کھولا جانے والا امریکی قونصل خانہ فلسطینیوں کے ساتھ سفارتی رابطے کا مرکز تھا۔ سابق امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کئے جانے کے بعد قونصل خانے کا درجہ کم کر کے اسے فلسطینی امور کا یونٹ بنا کر بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے میں ضم کر دیا گیا تھا۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اکتوبر 2021ء میں فلسطینیوں کیلئے امریکی قونصل خانے کی بحالی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ قونصل خانے کا دوبارہ کھولا جانا فلسطینیوں کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی کوششوں کا حصہ ہو گا، لیکن امریکی وزیر خارجہ نے اس کیلئے وقت کا تعین نہیں کیا تھا۔
اکتوبر2021ء میں ہی فلسطینی صدر محمود عباس نے فلسطینی قیادت کے ایک اجلاس میں امریکی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ فلسطینیوں کیلئےکئے گئے اپنے تمام وعدوں پر عمل درآمد کرے جن میں سرفہرست بیت المقدس میں امریکی قونصل خانےکو دوبارہ سے کھولا جانا تھا۔ اس کے علاوہ واشنگٹن میں تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کے نمائندہ مشن کا دوبارہ کھولا جانا اور اس مالی محاصرے کو ختم کرنا شامل ہے جو سابق انتظامیہ نے فلسطینی قومی اتھارٹی اور فلسطینی عوام پر عائد کیا تھا۔