متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف چار ماہ سے زیادہ عرصے سے دہلی کی سرحدوں پر مسلسل دھرنا دینے والے کسانوں نے اب پارلیمان تک مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جہاں بھارتی حکومت نے روکا وہیں دھرنا دے دیں گے، رواں سال جنوری میں حکومت کو 26 نومبر تک مطالبات ماننے کی مہلت دی تھی، مودی سرکار کے کے پاس کسان مخالف قوانین کو کالعدم قرار دینے کے لئے اب بھی چند روز کی مہلت باقی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس 30 نومبر کو کسانوں نے بھارتی حکومت کے مظالم سے تنگ آکر مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں احتجاج کرتے ہوئے پارلیمنٹ جانے کا عندیہ دیا تھا۔بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں اپنے حقوق اور حکومتی مظالم کے خلاف جمع ہونے والے ہزاروں کسانوں نے کئی راتیں آسمان تلے گزاریں تھیں، مظاہرین نے اعلان کیا تھا کہ اگر ان کے مطالبات حکومت نے پورے نہیں کیے، توپارلیمنٹ کی جانب مارچ کا اعلان کریں گے،اب مودی سرکار کر پاس چند روز باقی ہیں
واضح رہے کہ مودی حکومت نے بھارتی پارلیمان سے گذشتہ برس زراعت کے متعلق تین بل پاس کروائے تھے جن میں پہلا زرعی پیداوار تجارت اور کامرس قانون 2020 ہے جکہ دوسرے کو کسان کی ترقی و تحفظ کا نام دیا گیا ہے، تیسرے زرعی قانون میں ضروری اشیا سے متعلق ترمیم کی گئی ہے جس پر پورے بھارت کے کسان سراپا احتجاج ہیں، وہ ان قوانین کو کسانوں کا استحصال قرار دیتے ہیں۔ بھارتی کسانوں کا اب تک کا احتجاج پر امن ہے جبکہ مودی حکومت تمام تر ریاستی ہتھکنڈے اپناتے ہوئے طاقت کا ناجائز استعمال کر رہی ہے، گرفتاریوں اور جیلوں میں غیر انسانی سلوک کیخلاف مودی حکومت کی تمام طبقوں کی جانب سے مذمت کی گئی ہے۔
بھارت میں متازعہ زرعی قوانین کے خلاف گزشتہ نومبر سے دہلی کی سرحدوں کا محاصرہ کرنے والے کسانوں اور حکومت کے درمیان تعطل بدستور برقرار ہے۔ اس دوران ڈھائی سو سے زیادہ کسانوں کی موت واقع ہو چکی ہے لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ قوانین کی واپسی تک ان کا دھرنا جاری رہے گا۔