حکومت نے شہری ابرار خالد کو وزیراعظم کے تحائف کی تفصیلات دینے کا انفارمیشن کمیشن کا حکم اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر تے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ یہ تحفے کلاسیفائیڈ اور دو ریاستوں کے مابین تعلقات کی عکاسی کرتے ہیں، ان کی تفصیل جاری کرنے سے بے بنیاد اور غیر ضروری خبریں جنم لتی ہیں جس کے باعث دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات اور ملک کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ حکومت کی جانب سے انفارمیشن کمیشن کا حکم عدالت میں چیلنج کرنے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے انفارمیشن کمیشن اور درخواست گزار ابرار خالد کو طلب کر لیا ہے۔
حکومت کے اس اقدام کو جب سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا گیاتو وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ مختلف ممالک جب کسی ملکی سربراہ کو کوئی تحفہ دیتے ہیں تو اس کی تشہیر اور موازنے کو مناسب نہیں سمجھتے، کچھ برادر اسلامی ملک اسے شدید بدتمیزی سمجھتے ہیں۔ اگر ملکی سربراہ کوئی تحفہ ذاتی حیثیت میں اپنے پاس رکھنا چاہیں تو ماضی کی طرح اسے غائب کرنے کی بجائے اسکی 50 فیصد قیمت جمع کرائی جاتی ہے جو کہ ماضی میں 15 فیصد کرائی جاتی تھی۔
ملکی قوانین کے تحت توشہ خانہ میں جمع کروائے جاتے ہیں اور اگر کوئی تحفہ پاس رکھنا مقصود ہو تو قانون کے مطابق اس کے عوض پیسے خزانے میں جمع کروائے جاتے ہیں۔
ماضی میں 15% تک پیسے جمع کروائے جاتے تھے۔ لیکن PTI کی حکومت میں 50% رقم جمع کروائی جاتی ہے
ماضی کی طرح تحائف غائب نہیں ہوتے— Dr. Shahbaz GiLL (@SHABAZGIL) September 20, 2021