قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے منعقدہ اجلاس میں پاور ڈویژن کے ایڈیشنل سیکریٹری وسیم مختار نے انکشاف کیا کہ جولائی 2018ءمیں بجلی کے نرخ 11.72 روپے تھے جو اب بڑھ کے 16.44 روپے ہو چکے ہیں۔یہ اضافہ مجموعی طور پر 40 فیصد بنتا ہے۔ جبکہ ڈاکٹر مصدق احمد خان کا کہنا تھا کہ زائد بلنگ کے واقعات میٹر ریڈنگ کے ایام بڑھانے کی وجہ سے ہوئے، یہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی مس مینجمنٹ ہے جس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔
پاور ڈویژن کے ایڈیشنل سیکریٹری وسیم مختار نے کمیٹی کو بتایا کہ فروری 2021ء میں نیپرا کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں 3.34 روپے فی یونٹ ضافے کی تجویز دی تھی لیکن صرف 1.95 روپے فی یونٹ اضافہ کیا گیا، یہ ایک سیاسی فیصلہ بھی تھا کہ حکومت آئندہ کن حالات میں یہ بوجھ عوام پر منتقل کرتی ہے۔ قائمہ کمیٹی میں پیش کی گئی تفصیلات پر کمیٹی نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود گردشی قرضوں میں دگنا اضافہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا۔