قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) کے ماہرین نے کہا ہے کہ منکی پاکس سے متاثرہ افراد اپنے آپ کو گھروں میں الگ تھلگ رکھیں، یہ چکن پاکس سے کم خطرناک ہے، تاہم پاکستان میں اب تک منکی پاکس کے زیادہ کیسز سامنے نہیں آئے۔
این آئی ایچ کی لیبارٹری کوآرڈینیٹر نازش بدر نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ چیچک اور چکن پاکس کی علامات منکی پاکس سے بہت ملتی جلتی ہیں جن میں بخار، سر درد، پٹھوں میں درد، تھکاوٹ اور جلد کے دھبے شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام خوفزدہ نہ ہوں اور بیماری سے متعلق افواہوں پر کان نہ دھریں۔ا ن کا کہنا تھا کہ قبل از وقت احتیاطی تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں جن میں بازار جاتے وقت ماسک، دستانے پہننا، اجتماعات اور دوسروں کے ساتھ ملنے کے بعد ہاتھ دھونا شامل ہے۔
ڈاکٹر شفیق الرحمٰن سائنٹیفک آفیسر نے کہا کہ وائرل انفیکشن کسی متاثرہ شخص سے پھیل سکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس مریض کو الگ تھلگ رکھیں۔ این آئی ایچ کے فوکل پرسن برائے متعدی امراض ڈاکٹر ممتاز علی خان نے کہا کہ منکی پاکس کوئی نئی بیماری نہیں اور اس کا ڈی این اے وائرس ابتدائی طور پر 1958ء میں بندروں میں دریافت ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ منکی پاکس ایک ہلکی بیماری ہے اور زیادہ تر کیسز بغیر علاج کے خود ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ سینئر سائنٹیفک آفیسر این آئی ایچ، ڈاکٹر محمد واصف ملک نے کہا کہ منکی پاکس کئی دیگر وسطی اور مغربی افریقی ممالک میں وائرل بیماری کے طور پر رپورٹ کیا گیا ہے۔
انہوں نے منکی پاکس کے مریضوں کو مشورہ دیا کہ وہ سرجیکل ماسک پہنیں، خاص طور پر وہ لوگ جن کو کھانسی، سانس لینے میں تکلیف، گلے کی سوزش وغیرہ کے مسائل ہیں۔انہوں نے مشورہ دیا کہ ملک میں آنے والے متاثرہ افراد وبا کا سبب بن سکتے ہیں، اس لیے وائرس سے متاثرہ ممالک سے آنے والے مسافروں کی سکریننگ کی جانی چاہیے۔
ڈاکٹر وجیہہ وقار نے کہا کہ این آئی ایچ نے پہلے ہی صحت کے حکام کو ایک ایڈوائزری جاری کر دی ہے کہ اگر منکی پاکس انفیکشن کا پتہ چلے تو معیاری آپریٹنگ طریقہ کار پر عمل کیا جائے۔ ادارہ صحت کے ماہرین نے غیر معمولی علامات پر کڑی نظر رکھنے پر بھی زور دیا۔
یاد رہے کہ دنیا بھر میں منکی پاکس کے کیسز کی تعداد 300 سے تجاوز کر گئی ہے۔