امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں لکھے گئے اپنے کالم میں وزیراعظم خان کا کہنا تھا کہ تین لاکھ سے زائدتربیت یافتہ اور بہترین اسلحے سے لیس افغان آرمی کی طالبان سے شکست کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ بنیادی مسئلہ افغانستان کی حکومت کا سٹرکچر تھا جو افغانستان کی عوام کی نظر میں جائز نہیں تھا۔
افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد امریکی حکام کے رویے پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ کانگریس اجلاس کی حالیہ کاروائیوں پر حیرانگی ہوئی جس میں 20 سالوں پر محیط پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کو نظر انداز کیا گیا، بلکہ اس کے ساتھ ہمیں افغانستان کی جنگ میں ہونے والے امریکی نقصان کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
وزیراعظم عمران خان نے الزام تراشی کے کھیل کو جاری رکھنے کی بجائے ایک اور تنازع سے بچنے کیلئے مستقبل پر نظریں جمانے پر زور دیا اور کہا کہ پاکستان کو افغانستان کی جنگ کے نتائج اور امریکا کے نقصانات کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔
پاکستان کا نکتہ نظر پیش کرتے ہوئے۔
https://t.co/JoMIcj4OTy— Imran Khan (@ImranKhanPTI) September 27, 2021
مزید ان کا کہنا تھا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ 2001ء کے بعد سے میں نے کئی بار کہا کہ افغانستان کی عوام کسی بھی غیر ملکی عسکری قوت کو قبول نہیں کریں گے، کوئی بھی اس حقیقت کو نہیں بدل سکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان کی سابقہ حکومتوں نے امریکی غلطیوں کی نشاندہی کرنے کی بجائےامریکہ کو خوش کرنے کیلئےان کی ہر بات سے اتفاق کیا، جس کی دونوں ممالک کو بھاری قیمت اٹھانا پڑی۔
مغربی ممالک کے رویے کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ان حقائق کا سامنا کرنے کی بجائے مغربی ممالک نے پاکستان پر طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کے الزامات لگائے، اور ہمیں قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی گئی۔