پاکستان کی ویمن جیولین تھرو چیمپئن فاطمہ حسین کا کہنا ہے کہ کامن ویتلھ گیمز اور اسلامی یکجہتی گیمز میں ارشد ندیم کے گولڈ میڈل جیتنے سے پاکستان کو ایک نیا رول ماڈل مل گیا ہے، امید ہے کہ اب حکام پاکستان میں ایتھلیٹکس پر بھی توجہ دیں گے۔
فاطمہ حسین 2016 سے پاکستان کی ویمن جیویلین تھرو چیمپئن ہیں، گوکہ وہ پریکٹس میں 45 میٹر سے طویل تھروز کرچکی ہیں لیکن مقابلوں میں ان کی پرسنل بیسٹ 43.93 میٹر ہے جو انہوں نے 2019 میں پشاور میں حاصل کی تھی۔
24 سالہ فاطمہ حسین کہتی ہیں کہ خواتین ایتھلیٹکس کو ویسے ہی کم مقابلے ملتے ہیں اس لیے انٹرنیشنل معیار تک پہنچنا زیادہ دشوار ہوجاتا ہے، خواتین ایتھلیٹکس کی بہتری کیلئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ مقابلے دیے جائیں اور انٹرنیشنل ایکسپوژر ملے، ابھی مشکل سے ایک خاتون ایتھلیٹ کو بڑے ایونٹ میں بھیجا جاتا ہے، اس تعداد کو بڑھانا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح ارشد ندیم نے گولڈ میڈلز جیتے اور ان کو جو پذیرائی ملی ہے اس کے بعد امید ہے پاکستان میں ایتھلیٹکس پر توجہ دی جائے گی، اس پر سرمایہ کاری کی جائے گی اور یہ بھروسہ کیا جائے گا کہ پاکستان ٹریک اینڈ فیلڈ میں میڈلز جیت سکتا ہے۔
فاطمہ حسین کا کہنا تھا کہ ارشد ندیم کی صورت میں پاکستانی کھلاڑیوں کو ایک رول ماڈل ملا ہے، وہ مبارکباد کے مستحق ہیں، امید ہے کہ ارشد کی کامیابیوں سے متاثر ہوکر پاکستان میں اور بھی لوگ جیویلین تھرو کی جانب آئیں گے اور دیگر ایتھلیٹس بھی ان کی طرح کارکردگی بہتر کرنے کیلئے محنت کرنے کی کوشش کریں گے۔