پاکستان کے 75 ویں سال کے موقع پر جہاں ہر کوئی منفرد انداز سے اس خاص موقع کو منا رہا ہے، اسی طرح حکومت پاکستان نے بھی قومی ترانے کو ایک نئے انداز میں بنا کر سب کی توجہ حاصل کی ہے۔
پاکستان کا یہ ترانہ دوبارہ ترتیب دیا گیا ہے جس میں دھن اور بول وہی ہیں جو کہ پہلے ترانے میں تھے، البتہ اس پڑھنے والے گلوکار آج کے دور کے ہیں۔ اس ترانے کو کُل 155 گلوکاروں نے پڑھا ہے۔ یہ بھی منفرد بات ہے کہ اس ترانے کی ریکارڈنگ ملک بھر میں کی گئی تھی، پورے ملک میں کی جانے والی ریکارڈنگ کی وجہ سے اسے بنانے میں 13 ماہ کا طویل عرصہ لگا۔
ترانے کے بول اور دھن وہی ہے لیکن فرق بس اتنا ہے کہ اس میں منظر کشی بھی کی گئی ہے، پاکستان میں بسنے والے ہر رنگ، نسل، مذہب سے تعلق رکھنے والے کی نمائندگی کی گئی ہے، جبکہ گلوکار بھی پاکستان کے ہر علاقے سے شامل کیے گئے۔
عیسائی، ہندو، پارسی، سکھ سمیت پاکستان میں موجود ہر مذہب کے رہنے والے کو اس ترانے کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب ہر علاقے کا رنگ بھی خوب نمایاں ہے، گلگت کے پہاڑ ہوں، یا فیصل مسجد، لاہور کی سڑک ہو یا پھر کراچی میں قائد کا مزار، یہاں تک کے قائد اعظم کی مادر علمی سندھ مدرستہ السلام یونی ورسٹی کو بھی دکھایا گیا ہے۔
اس ترانے کو دوبارہ بنانے کے لیے شروعات پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں ہوئی تھی، عمران خان کی حکومت کی جانب سے 2021 میں ایک اسٹئیرنگ کمیٹی بنائی گئی تھی جس کا کام اس ترانے کو ریکارڈ کرانا تھا۔
اس کمیٹی کے چئیر مین جاوید جبار نے بی بی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس پراجیکٹ کے جس پہلو نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا اس میں شرکتی بنیادوں پر نہ صرف اس متنوع معاشرے کے تمام حصوں کی نمائندگی یقینی بنانی تھی، بلکہ موسیقی کے تمام اقسام کو مدِنظر رکھتے ہوئے بھی آوازوں کو شامل کرنا ضروری تھا۔‘
جاوید جبار نے مزید بتایا کہ ’جب 1954 میں ترانہ ریکارڈ کیا گیا تھا تو اس وقت اسے 10 گلوکاروں نے گایا تھا تاہم پاکستان میں 68 برس میں ایک متنوع معاشرہ بن چکا ہے اور ساتھ ہی ساتھ موسیقی کو ریکارڈ کرنے کے طریقہ کار میں بھی جدت آئی ہے۔‘
کیونکہ پاکستان میں کوئی سٹینڈنگ آرکسٹرا نہیں ہے جیسے دنیا کے دیگر ممالک میں ہوتا ہے، اس لیے ہمیں پاکستانی آرمی، ایئرفورس اور نیوی کے بینڈز کی مدد حاصل کرنی پڑی۔ اپریل میں جب تحریکِ انصاف کی حکومت ختم ہوئی تو انھوں نے اپنا استعفیٰ نئی آنے والی حکومت کو جمع کروایا اور تاہم نئی حکومت نے ان سے منصوبہ جاری رکھنے کی درخواست کی۔
واضح رہے پہلے ترانے کو 10 گلوکاروں نے گایا تھا، تاہم اس بار 155 گلوکاروں نے حصہ لیا۔
اس ترانے میں عمیر جسوال، ساحر علی بگا، عابد بروہی، بسمہ عبداللہ، عادل بلوچ، احمد جہانزیب، الیسیا ڈیاس، علی حمزہ، صابری سسٹرز کی انمتا سلیم، عارف لوہار، بلال سعید، فاخر محمود، فریحہ پرویز، ہارون شاہد، نرمل رائے، شمو بائی، زہب بنگش سمیت مقامی گلوکار بھی شامل تھے۔