سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسداد منشیات نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کے کیس کو سپریم کورٹ میں لے جانے کا عندیہ دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے انسداد منشیات کا اجلاس چیرمین کمیٹی سینیٹر اعجاز چودھری کی سربراہی میں منقعد ہوا، جس میں سینیٹر محسن عزیز، رانا مقبول، دوست محمد خان ، نصیب الله، اور سینٹر فلک ناز سمیت وفاقی وزیر انسداد منشیات شاہ زین بگٹی ،سیکرٹری نارکوٹکس کنڑول حمیرا احمد اور اے این ایف حکام نے شرکت کی۔
اجلاس 15 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا تو ڈائریکٹر جنرل اے این ایف کی عدم شرکت پر چیرمین کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈائرکٹر جنرل ات این ایف کی عدم شرکت کے باعث اجلاس پہلے بھی ملتوی ہوا اور سیکرٹری انسداد منشیات و اے این ایف حکام کو ہدایات دیں کہ جنرل صاحب تک تحفظات پہنچا دیجیے گا کہ انکی وجہ سے پہلے بھی اجلاس ملتوی کیے گئے۔
سیکرٹری وزارت انسداد منشیات حمیرا احمد نے بریفنگ دی کہ کمیٹی کے 12 اجلاس منعقد ہوئے، جن میں پیش کی گئی زیادہ تر تجاویز پر عمل ہوچکا، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا الله کیس سے متعلق عدالت سے فیصلہ ہوا ہے، جس پر چیرمین کمیٹی نے دریافت کیا کہ اس میں ایک ہی ماہ کے اندر ایسا کیا ہوا کہ رانا ثناءاللہ کیس ختم ہوگیا۔
سینیٹر اعجاز چودھری نے کہا کہ جاننا چاہتا ہوں کہ یہ سب کیا ہوا کیونکہ جب یہ کیس ہوا تو اس وقت کے ڈی جی اے این ایف جنرل عارف ملک نے واضع کہا تھا کہ رانا ثنا الله کیس کلیئر ہے، جو کسی سیاسی بنیاد پر نہیں بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ قوم سمجھنا چاہے گی کہ یہ کیا ہورھا ہے؟ کیا معاملہ سپریم کورٹ میں لیکر جارھے ہیں؟ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہائی پروفائل کیس کو ایسے ہی جانے دیا جائے، جس پر اے این ایف حکام نے مؤقف دیا کہ فیصلہ عدالت نے دیا، اسی لیے لیگل نقات پر کمنٹ نہیں کیے جاسکتے تاہم اے این ایف نے کیس کیا جس کے بعد فرد جرم عائد ہوئی اور چالان جمع تھا جب کہ جس گراونڈ پر بری کیا ہے وہ دو گواہوں کے بیانات پر ہیں اور گواہوں کے بیانات تبدیل ہونے پر محکمانہ طور پر کام کررہے ہیں۔
سیکرٹری وزارت انسداد منشیات حمیرا احمد نے بھی کہا کہ عدالت کا احترام ہے کیوں کہ فیصلہ عدالت نے دیا، اب آگے دیکھ رھے ہیں کہ قانونی طور پر کیسے آگے بڑھایا جاسکتا ہے، جس پر چیرمین کمیٹی نے کہا کہ سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی رانا ثنااللہ کیس پر کیا کرسکی سب کے سامنے ہے گواہ ہی بیان بدل لیں تو اسکا مطلب ہے کہ اے این ایف نے اسٹانس تبدیل کیا اور اس سے پہلے ہر اجلاس میں پوچھتے تھے تو جواب ملتا تھا کہ 2019 سے چالان عدالت میں پیش ہے، کیس مضبوط ہے لیکن نکلا کیا، خود مجھے بریفنگ دی جس پر میں نے انٹرنیشنل پارلیمنٹری یونین جہاں رانا ثنا اللہ گئے تھے ان کے ساتھ زیادتی ہورھی ہے، میں نے جاکر پاکستان کا مقدمہ لڑا لیکن اب یہ سب کچھ ہورہا ہے۔
اس موقع پر سینیٹر دوست محمد خان نے اہم نقطہ اٹھایا کہ جب کیس درج ہوا تو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے ڈائریکٹر جنرل اے این ایف اور بریگیڈیر کو بلا کر پوچھا تھا کہ کیا واقعی کیس درست ہے اگر نہیں تو میں کسی سیاسی بنیاد پر ایسے کیس کو چلانے کے حق میں نہیں ہوں تو ڈی جی اور بریگیڈیئر نے تسلی دی تھی کہ بلکل درست کیس ہے جس میں رتی برابر بھی شک نہیں، پھر اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ٹھیک ہے اگر کیس درست ہے تو میرٹ پر کام کریں۔
سینیٹر دوست محمد کا کمیٹی کے سامنے کہنا تھا کہ وہ خود اس کے گواہ ہیں جس پر وفاقی وزیر انسداد منشیات شاہ زین بگٹی نے کہا کہ رانا ثناءاللہ کیس پر اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ اس کو عدالت میں چیلنج کرسکتا ہے جس پر کمیٹی چیرمین کے پوچھنے پر سینیٹر دوست محمد نے کہا کہ عدالت گواہ کے طور بلائے یا اے این ایف گواہ کی حیثیت سے اسٹیٹ منٹ ریکارڈ کرنا چاہے تو تیار ہوں۔
بعدازاں چیرمین کمیٹی نے کمیٹی کی رائے کے ساتھ معاملہ عدالت عالیہ میں لے جانے کی سفارش کردی۔
اجلاس میں تعلیمی اداروں میں انسداد منشیات و ملوث عناصر کے خلاف سزا و ایکشن لینے کے سینیٹر محسن عزیز کے بل پر وزارت انسداد منشیات اور اے این ایف سے بھی تجاویز مانگ لی گئیں۔
اسی طرح اسلام آباد ائیرپورٹ پر اے این ایف کے عملے کی جانب سے مسافر سے رشوت لینے کی ویڈیو منظر عام پر آنے کا معاملہ بھی زیر غور لایا گیا جس پر سیکرٹری وزارت انسداد منشیات کا کہنا تھا ویڈیو سامنے آتے ہی وفاقی وزیر نے نوٹس لیا اور اے این ایف نے بھی انکوائری شروع کردی ہے، یقین دلاتے ہیں بھرپور کاروائی کی جارھی ہے جبکہ ایسے واقعات مستقبل میں نہ ہوں، جس کیلئے ائیرپورٹ پر متعین عملے کے لیے ریفریشر کورسز بھی شروع کروائے جارہے ہیں، جس پر چیرمین کمیٹی نے رپورٹ اگلے اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایات جاری کیں۔
ممبران کمیٹی نے منشیات کی آسان فراہمی و استعمال پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ منشيات کے پھیلاؤ میں اے این ایف پولیس ایکسائز کا عملہ یا تو خود ملوث ہے یا روک تھام میں عدم دلچسپی لیتا ہے۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں چئیرمین سینیٹر اعجاز چوہدری کا کہنا تھا کہ رانا ثناءاللہ کیس سے متعلق حکام نے بتایا کہ سزا دلوانے کے لیے تمام ثبوت شواہد کے ساتھ موجود ہیں، حکام کی پر اعتماد و بریفنگ کے بعد میں دس ممالک کے پارلیمانی اجلاس کی جیوری کے سامنے پیش ہوا اور جیوری کے سامنے میں نے ڈٹ کر پاکستان کا مقدمہ لڑا کیونکہ رانا ثناء اس جیوری کے سامنے پیش ہوئے تھے کہ ان پر ظلم ہوا ہے، رانا ثناءاللہ کیس مکمل تھا اس میں کوئی خامی نہیں تھی تمام ثبوت موجود تھے۔
کمیٹی کو اجلاس میں بتایا گیا کہ کیس عدالت میں زیر التواء ہے کیونکہ ملزم کیس کو لٹکا رہا ہے اچانک حکومت بدلی اور تمام جرائم پیشہ افراد رہا ہوئے اور مقدمات ختم ہوگئے، جن اداروں نے کیسز بنائے، انہوں نے ہی صفائیاں پیش کیں۔
چیرمین کمیٹی اعجاز چودھری کا کہنا تھا کہ یہ حکومت میں اسی لیے آئے کہ جرائم کرتے رہیں اور بچتے رہیں، آج کمیٹی میں انکشاف ہوا کہ اے این ایف کے اپنے ہی گواہان رانا ثناء اللہ کے ساتھ مل گئے جنہوں نے گرفتار کیا اور منشیات پکڑی وہی اہلکار عدالت میں جا کر بیان سے مکر گئے، گواہان کے مکرنے پر انسداد منشیات کے لیے متحرک (اے این ایف ) جیسے ادارے پر حرف آیا۔
چیرمین کمیٹی اعجاز چودھری کا مزید کہنا تھا کہ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ اس معاملے پر سنجیدگی سے نوٹس لیا جائے، امپورٹڈ حکومت اپنے خلاف گواہان کو یا مروا دیتی ہے یا دباؤ ڈال کر بیان تبدیل کرواتی ہے، اتفاق رائے سے فیصلہ ہوا ہے کہ رانا ثناء اللہ کی بریت کے خلاف معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جایا جائے گا۔