سابق اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اپوزیشن میں رہنے کے بعد آج دائیں بازو کے اتحادیوں کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں واپس آرہے ہیں، تجزیہ کار اسے ملکی تاریخ کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت قرار دے رہے ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں کی طرح اسرائیل میں سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سینئر عہدیداروں نے بھی اس پیش رفت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کے تھنک ٹینک کے صدر یوہانن پلیسنر نے بتایا کہ یہ حکومت نیتن یاہو کے ساتھیوں کے لیے سہانے خواب کی طرح ہے اور ایک فریق کا سہانا خواب دوسرے فریق کے لیے بھیانک خواب جیسا ہے، یہ حکومت یقیناً ملک کو نئے رُخ پر ڈال دے گی۔
واضح رہے کہ 73 سالہ نیتن یاہو عدالت میں بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں، انہیں اسرائیل کی تاریخ میں سب سے طویل مدت تک وزیر اعظم رہنے کا اعزاز حاصل ہے جس میں 2009ء سے 2021ء تک 12 سال اور 90 کی دہائی کے آخر میں 3 سال کا عرصہ بھی شامل ہے۔
انہیں 2021ء میں نفتالی بینیٹ اور یائیر لاپید کی سربراہی میں بائیں بازو اور اعتدال پسند جماعتوں سمیت عرب جماعتوں کے اتحاد نے اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا، تاہم انہیں اقتدار میں واپس آنے میں زیادہ دیر نہ لگی۔
یکم نومبر کو ہونے والے انتخابات کے بعد نیتن یاہو نے الٹرا آرتھوڈوکس اور انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کیے، جن میں جیوش پاور پارٹی، شاس پارٹی اور بیزالل سموٹرچ کی ریلیجئیس زائنوازم پارٹی بھی شامل ہیں، یہ جماعتیں ماضی میں فلسطینیوں کے بارے میں اشتعال انگیز تبصرے جاری کر چکی ہیں۔
اب یہ جماعتیں مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاری کی پالیسی اور اسرائیلی پولیس کی ذمہ داری سنبھالیں گے جن کے زیرِانتظام 1967ء سے اسرائیل کے زیر قبضہ علاقے بھی شامل ہیں۔
نئی حکومت کے حلف اٹھانے سے قبل ہی اکثریتی جماعتوں کی جانب سے ایسے قوانین منظور کیے جا چکے ہیں جن کے تحت الٹرا آرتھوڈوکس شاس پارٹی کے ایک اہم اتحادی ’آریہ ڈیری‘ کو بطور وزیر کام کرنے کی اجازت ہوگی جوکہ ماضی میں ٹیکس جرائم میں ملوث رہ چکے ہیں۔
انہوں نے وزیر برائے قومی سلامتی کے اختیارات کو بڑھانے کے حق میں بھی ووٹ دیا جوکہ بن گیویر کو سونپی جائے گی جنہیں پولیس پر اختیار حاصل ہوگا۔