قومی سلامتی کمیٹی نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ملکی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی ہو گی، دہشت گردی سے پوری ریاستی قوت کے ساتھ نمٹا جائے گا، پاک سرزمین کے ایک ایک انچ پر ریاست کی رٹ برقرار رکھی جائے گی، سیلاب متاثرہ علاقوں کی بحالی اور تعمیرنو کیلئے تمام وسائل کو متحرک کیا جائے گا۔
وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا 40 واں اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں وفاقی وزرا، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، تینوں سروسز چیفس اورانٹیلی جنس اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔ اعلامیہ کے مطابق اجلاس نے قرار دیا کہ قومی سلامتی کا تصور معاشی سلامتی کے گردگھومتا ہے اور یہ کہ معاشی خودانحصاری اور خودمختاری کے بغیر قومی خودمختاری اور وقارپر دبائو آتا ہے۔
اجلاس نے جاری معاشی صورتحال کا جامع جائزہ لیا جس کے نتیجہ میں پاکستان کے عام آدمی خاص طور پر لوئر اور مڈل کلاس طبقات کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے اجلاس کو معاشی استحکام کے لئے حکومتی روڈ میپ پر بریف کیا جس میں عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ ہونے والی بات چیت ، باہمی مفاد پر مبنی دیگراقتصادی ذرائع کی تلاش کے ساتھ ساتھ عام آدمی کے ریلیف کے جامع اقدامات شامل ہیں۔ معیشت کی مضبوطی کے لئے کمیٹی نے ٹھوس اقدامات پر اتفاق کیا جن میں درآمدات میں توازن لانے اور کرنسی کی بیرون ملک غیرقانونی منتقلی کا سدباب شامل ہیں۔ زراعت کی پیداواراورمینوفیکچرنگ شعبے میں اضافہ کے لئے خاص طورپر توجہ مرکوز کی جائے گی تاکہ فوڈ سکیورٹی، درآمدات کے متبادل اور روزگار کے مواقع کو یقینی بنایاجاسکے۔ عزم ظاہر کیا گیا کہ عوامی مفاداور فلاح پر مبنی معاشی پالیسیاں اولین ترجیح رہیں گی جس کے ثمرات سے عام آدمی مستفید ہو۔
اتفاق کیاگیا کہ تمام متعلقہ فریقین کی مشاورت سے تیز رفتار معاشی بحالی اور روڈ میپ پر اتفاق رائے پیدا کیاجائے۔ 3 کروڑ 30 لاکھ سیلاب متاثرین کی مشکلات پر غور کرتے ہوئے اجلاس نے عزم ظاہر کیا کہ صوبائی حکومتوں ا ور کثیر الجہتی مالیاتی اداروں کے تعاون سے سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔
اجلاس نے وزیراعظم کی قیادت میں تمام وفاقی اکائیوں کے ساتھ مل کر سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی کے لئے کوششوں کو سراہا۔ کمیٹی کو ملک بالخصوص خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سکیورٹی کی صورتحال سے بھی آگاہ کیاگیا ۔ وزیراعظم نے زور دیا کہ نیشنل ایکشن پلان اور قومی سکیورٹی پالیسی کے مطابق وفاق اور صوبائی حکومتیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کریں گی جس میں عوام کی سماجی ومعاشی ترقی کو مرکزیت حاصل ہے۔ سازگارو موزوں محفوظ ماحول کو یقینی بنانے میں مسلح افواج ایک ٹھوس ڈیٹرنس فراہم کریں گی۔ صوبائی ایپکس کمیٹیاں بحال کی جارہی ہیں جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے خاص طورپر انسداد دہشت گردی کے محکموں کی صلاحیتوں اور استعداد کار کو مطلوبہ معیار پر لایاجائے گا۔
اجلاس نے قرار دیا کہ کسی بھی ملک کو اپنی سرزمین دہشت گردوں کی پناہ گاہ کے طورپر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور پاکستان اپنے عوام کے تحفظ وسلامتی کے دفاع کا ہر حق محفوظ رکھتا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی)نے پاکستان میں دہشت گردی کے لئے ’’زیروٹالرنس‘‘ کے عزم کا اعادہ کرتے ہر قسم کی دہشت گردی جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عہد دہرایا۔ دہشت گردی کو پوری ریاستی قوت سے نمٹا جائے گا۔ پاکستان کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا اور پاکستان کی سرزمین کے ایک ایک انچ پر ریاستی عملداری کو یقینی بنایا جائے گا۔