سپریم کورٹ نے عمران خان دور میں نیب آرڈیننس سے مستفید ہونے والوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے نیب آرڈینشن میں ترامیم کے خلاف سابق وزیر عاظم عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ حقیقت ہے نیب ترامیم کے بعد 386 کیسز عدالتوں سے واپس ہوئے۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے موقف اختیار کیا کہ نیب قانون میں حالیہ ترامیم پرانے قانون کا ہی تسلسل ہیں، عدالت خود کو 386نیب کیسز تک محدود نہ رکھے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے آبزرویشن دی 386 کیسز میں سے کتنے اراکین پارلیمنٹ کے تھے؟ عدالت یہ بھی پوچھ سکتی تھی تحریک انصاف دور کے آرڈیننسز سے کتنے بری ہوئے؟ یہ بھی پوچھیں ان آرڈیننسز سے بری ملزمان میں کون کون شامل ہے۔جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ بتادیں نیب سےکیا سوالات پوچھےجائیں، ہم نوٹ کرادیتے ہیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب بتائے پی ٹی آئی کے آرڈیننسز سے کتنےریفرنس واپس ہوئے؟ یہ بتائیں کہ اس وقت احتساب عدالتوں نے کتنی بریت درخواستیں واپس کیں؟سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ تاثر غلط ہے نیب ختم ہونے سے قانون کی گرفت ختم ہوجائے گی، نیب کو ختم بھی کردیا جائے تو جرائم کے سدباب کے لئے دیگر قوانین ہیں، یہ کہنا درست نہیں بری ہونے والے صاف ہوکر گھر چلے جاتے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ نیب قانون میں حالیہ ترامیم عظیم ایمنسٹی اسکیم ہے، کیس کےدوران میرے کیے گئے سوالات عارضی نوعیت کے ہیں، مجھے یہ بھی پتہ ہے نیب کے علاوہ دیگر قوانین بھی موجود ہیں، اگر احتساب عدالت جرم سے بری کردے تو ملزم گھر ہی جائے گا۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی کامؤقف ہے کہ جرم ثابت کرنے کا معیار ہی بدل دیاگیا، یہ سوال بھی اہم ہے سزا ہونے کے بعد حالیہ ترامیم کا اطلاق ماضی سے کیسے ہوگا؟ یہ نہیں ہوسکتا کہ قانون میں ترامیم کرکے اطلاق 1985 سے کردیا جائے۔
سپریم کورٹ نے عمران خان دور میں نیب آرڈیننس سے مستفید ہونے والوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔ کیس کی مزید سماعت جمعرات کو ہوگی۔