عالمی بینک نے کہاہے کہ یوکرین کی جنگ، عالمی معاشی سکڑائو اورکھادوں وزرعی مداخل کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے عالمی سطح پراشیائے خوردنوش کی بلند قیمتوں کارحجان جاری ہے۔ یہ بات عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ اس وقت عالمی سطح پر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ اور افراط زر کارحجان جاری ہے ۔ ستمبر سے دسمبر 2022 تک کی مدت میں تمام کم آمدنی والے اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں افراط زر کی شرح بلند رہی ہے۔ کم اوردرمیانی آمدنی والے ممالک میں افراط زرکی شرح دوہندسی ہے ۔اس کے برعکس زیادہ آمدنی والے ممالک میں خوراک کی قیمتوں میں اضافہ سے مہنگائی کی شرح 87.3 فیصد تک پہنچ گئی، اس وقت اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ سے افریقا، شمالی امریکہ، لاطینی امریکا، جنوبی ایشیا، یورپ اور وسطی ایشیا کے ممالک زیادہ متاثرہیں ۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سے دسمبر 2022 کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ سود کی شرح میں اضافے سے قیمتوں کے دباو میں قدرے نرمی کے باوجود یوکرین کی جنگ، توانائی کے اخراجات میں اضافہ اور موسمیاتی واقعات وعوامل کی وجہ سے خوراک کی عالمی قیمتیں بلند رہنے کی توقع ہے۔ آئی ایم ایف نے بھی کہاہے کہ قیمتوں میں ریکارڈاضافہ سے غذائی عدم تحفظ اورسماجی تفاوت میں اضافہ ہواہے ، اس صورتحال نے کھانے پینے کی اشیا کی درآمدات پر انحصار کرنے والے ممالک کے بجٹ پر دبائو ڈالا ہے۔
عالمی بینک کے مطابق کھاد کی بلند قیمتیں کم آمدنی والے ممالک میں خوراک کی پیداوار میں ایک اہم رکاوٹ بن گئی ہیں، جو 2023 اور 2024 میں مختلف فصلوں کی پیداوار کے عمل کوعدم استحکام سے دوچارکرسکتی ہے ۔ اس وقت دنیا کے 45 ممالک میں 205 ملین افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
ان میں سے بہت سے ممالک میں کافی خام مال نائٹروجن، پوٹاش، فاسفیٹ، قدرتی گیس اور پیداواری سہولیات کی کمی ہے جس سے کسانوں کو کھادوں تک سستی رسائی میں مشکلات کا سامنا کرناپڑ رہاہے ۔عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق2020 کے اوائل سے کھاد وں کی قیمتیں تین گنا بڑھ چکی ہیں جبکہ کھادوں کی مارکیٹ بھی غیر مستحکم رہتی ہیں، جس سے چھوٹے کاشتکاروں کو کھادوں کی فراہمی میں مشکلات کاسامنا ہے ،
رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ زیادہ ترقی یافتہ معیشتوں میں قدرتی گیس اورڈیزل پرسبسڈی کی وجہ سے کسان زیادہ پھل اورسبزیاں اگا رہے ہیں ۔ رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ خوراک کی کمی کی وجہ سے44 کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں نومولود اورکم عمر بچوں کی صحت پراثرات مرتب ہورہے ہیں ۔