بھارت نے پاکستان اور چین کے ساتھ سرحد پر تنازعات اور جھڑپوں سے نمٹنے اور اپنی فوج کو جدید اسلحے اور ہتھیاروں سے لیس کرنے کے لیے سالانہ دفاعی بجٹ میں 13 فیصد کا اضافہ کردیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان سرحد، تجارت اور ٹیکنالوجی پر تنازعات ایک عرصے سے جاری ہیں اور 2020 میں لداخ میں چین کے ساتھ تنازع کے بعد سے اپنی فوجی قوت میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ اس وقت دنیا میں اپنی فوج پر سب سے زیادہ رقم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر موجود ہے اور اب بجٹ میں 13فیصد اضافے کے بعد مجموعی طور پر 73ارب ڈالر خرچ کرے گا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے سرحدی دفاع اور اسلحہ سازی کے عمل سمیت فوجی استعدادکار میں اضافے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور وہ اب اپنی نیوکلیئر سب میرین بھی بنا رہے ہیں جبکہ گزشتہ سال مقامی سطح پر تیار کردہ ایئر کرافٹ کیریئر کی بھی رونمائی کی تھی۔
بھارت کی وزیر خزانہ نرملا سیتھارمن نے 550ارب ڈالر کے بجٹ کا اعلان کیا جس میں 73ارب ڈالر دفاع کی مد میں رکھے گئے ہیں۔
اسلحے کی درآمدات کے لیے بھارت زیادہ تر انحصار اپنے دیرینہ پارٹنر روس پر انحصار کرتا ہے جبکہ بقیہ اسلحہ امریکا، فرانس اور اسرائیل سے خریدی جاتی ہیں لیکن وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت فوجی آلات و اسلحہ سازی میں خودانحصاری کو فروغ دینا چاہتی ہے۔
وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ کل بجٹ میں سے 13 فیصد رقم دفاعی اخراجات پر خرچ کی جائے گی۔
فوج کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے بہترین اسلحے سے لیس کرنے کے لیے فوجی اخراجات میں تیزی سے اضافہ کیا ہے تاکہ پاکستان اور چین کی سرحد پر اپنے فوجیوں کو بہترین اور وافر اسلحہ فراہم کر سکے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق نئی دہلی کی جواہر لعل یونیورسٹی کے دفاعی ماہر لکشمن بہیرا نے کہا کہ فوج کو جدت سے آراستہ کرنے کے لیے درکار ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے دفاعی بجٹ میں اضافہ مناسب لیکن یہ تمام ضروریات پوری کرنے سے قاصر رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے دیگر ترجیحات میں توازن کو برقرار رکھتے ہوئے دفاعی فورسز کے لیے مناسب رقم مختص کرنے کی کوشش کی ہے۔
13 لاکھ سے زائد فوج کے حامل بھارت کا دفاعی بجٹ جی ڈی پی کا 2فیصد ہے لیکن یہ چین کے مقابلے میں اب بھی کافی کم ہے جو اپنے دفاع پر سالانہ 230ارب ڈالر خرچ کرتا ہے۔