مریم نواز کیطرف سے دائر کردہ متفرق درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ احتساب عدالت نے 6 جولائی 2017ء کو ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا سنائی، جو پاکستان کی تاریخ میں پولیٹیکل انجینئرنگ اور قانون کی سنگین خلاف ورزیوں کی کلاسک مثال ہے،درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے بار سے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فاضل سابق جج نے کہا چیف جسٹس کو اپروچ کیا گیا کہ ہمیں الیکشن تک نواز شریف اور اس کی بیٹی کو باہر نہیں آنے دینا۔ مریم نواز نے درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ جسٹس شوکت صدیقی نے بتایا کہ ڈی جی آئی ایس آئی نے ان سے 29 جون 2018ء کو ملاقات کی، ڈی جی آئی ایس آئی نے بھی جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے عائد الزامات کی تردید نہیں کی، جسٹس شوکت صدیقی کے بیان سے عدالتی فیصلے کے غیر جانبدارانہ ہونے پر شکوک و شبہات پیدا ہوئے، جج ارشد ملک کی بھی وڈیو وائرل ہوئی کہ ان پر نواز شریف کو سزا سنانے کیلئے بے حد دباؤ تھا۔
مریم نواز نے مزید کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس کیس میں تفتیش اور استغاثہ کی نگرانی کی، سپریم کورٹ نے ایک طرح سے اس کیس کو مکمل طور پر کنٹرول کیا ، پاکستان کی تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی، سپریم کورٹ کا آئین میں کردار نہ تفتیش کار کا ہے نہ ہی پراسیکیوٹر کا، مریم نواز نے درخواست میں کہا کہ اثاثوں کے الزام میں تین الگ ریفرنس دائر کرنا بھی قانون کی خلاف ورزی تھی، ٹرائل کی ساری کارروائی اور ریفرنس فائل کرنے کے احکامات بھی دباؤ کا نتیجہ ہو سکتے ہیں،عدالت قانون کی ان سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لے اور انہیں تمام الزامات سے بری اور سزا کالعدم قرار دے۔
اسلام آبادہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس کا مریم نواز کی درخواست پر اعتراض
اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے مریم نواز کی ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ کالعدم کرنے کی متفرق درخواست پر اعتراض عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مریم نواز نے اس درخواست میں وہی استدعا کی ہےجو مرکزی اپیل میں پہلے سی کی ہوئی ہے۔ مریم نواز کی متفرق درخواست پر اعتراضات سے متعلق ان کے وکلا کو آگاہ کردیا گیا ہے۔ مریم نواز کی متفرق درخواست رجسٹرار آفس کے اعتراض کے ساتھ بدھ کے روز جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل خصوصی بنچ کے سامنے مقرر ہو گی۔
واضح رہے کہ احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں میاں نواز شریف کو10 سال مریم نواز کو7 سال جبکہ کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو 1 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ان سزاؤں کے خلاف اپیل پر بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملزمان کی ان سزاؤں کو معطل کررکھا ہے۔