امریکی صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے تائیوان سے متعلق صدر شی جن پنگ سے بات کی ہے اور انہیں یقین دلایا ہے کہ امریکہ تائیوان کے حوالے سے One China نامی معاہدے کی پاسداری کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں صدور نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ تائیوان کےمعاملے کو لیکر اسی موقف پر قائم رہیں گے، امریکی صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے چینی صدر پر واضح کر دیا ہے کہ اس معاہدے کی پاسداری کرنے کے علاوہ امریکہ کو اور کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔
یاد رہے کہ چین کا تائیوان کے متعلق واضح موقف ہے کہ وہ چین کا حصہ ہے، جب کہ تائیوان میں علیحدگی پسند امریکی آشیرباد پر خود کو آزاد ملک سمجھتے ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت کے اواخر میں تائیوان کے علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کے ساتھ تائیوان کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کی باتیں بھی کی جانے لگی تھیں۔ حالات میں کشیدگی کے بعد چینی فضائیہ نے تائیوان کی حدود میں پروازیں شروع کر دیں اور تائیوان کی سرحد کے ساتھ عسکری تنصیببات کی تعمیر پر بھی غور کیا جانے لگا۔ چین نے امریکہ پر واضح کردیا کہ وہ تائیوان میں مداخلت کرکے آگ سے کھیل رہا ہے، امریکہ کے ہاتھ شکست اور رسوائی کے علاوہ کچھ نہیں آئے گا۔ حال ہی میں تائیوان نے چینی طیاروں کی در اندازی پر فکر کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں چین کی جانب سے حملے کا خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔
ون چائنہ معاہدہ کیا ہے؟
تائیوان کی جانب سے بیانات کے بعد امریکی صدرنے ون چائنہ معاہدے کی پاسداری کا اعلان کرتے ہوئے دوسرے الفاظ میں چین کا موقف تسلیم کر لیا ہے کیونکہ ون چائنہ معاہدے کے مطابق امریکہ متحدہ چین کی پالیسی پر قائم رہے گا۔ معاہدکے مطابق امریکا سرکاری سطح پر تائیوان کے دارالحکومت تائی پی کو تسلیم کرنے کی بجائے تمام معاملات بیجنگ سے طے کرنے کا پابند ہے۔