امریکا کی ایک یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سائنسدان نے دعویٰ کیا ہے کہ چین کے طبی حکام نے کورونا وائرس کے جینیاتی کوڈ کو دنیا کے علم ہونے سے 5 دن قبل ہی جان لیا تھا۔
سائنسدان کے مطابق آزادانہ تحقیقات سے تصدیق ہوتی ہے کہ چین کی جانب سے ووہان میں کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو چھپایا گیا تھا۔
سائنسدان نے کہا کہ کورونا وائرس کا جینوم سیکونس ٹیسٹوں اور ویکسینز کی تیاری کے لیے لازمی ہوتا ہے اور چین کی جانب سے اسے دنیا کے ساتھ 2 ہفتے سے زائد عرصے بعد شیئر کیا گیا۔
بائیو سیفٹی ناؤ نامی گروپ کے شریک بانی اور نیو جرسی کی Rutgers یونیورسٹی کے پروفیسر Bryce Nickels نے کہا کہ کووڈ کی وبا کے ابتدائی مراحل کی مزید تفصیلات سامنے آنے پر ہم انتہائی اہم معلومات چھپانے کی کوششوں کو دیکھ سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ چین کی جانب سے عوامی رائے کو بدلنے کی جو کوششیں کی گئیں وہ بعد میں امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں بھی دیکھنے میں آئیں۔
ان کا یہ دعویٰ آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکا سے تعلق رکھنے والے 4 سائنسدانوں کے درمیان میسجز کے تبادلے میں سامنے آیا۔
ان میسجز میں ایک میڈیکل جرنل کے لیے لیبارٹری سے وائرس کی ممکنہ لیک کے حوالے سے ایک مضمون کی اشاعت پر بات کی گئی تھی۔
اس مضمون میں واضح کیا گیا کہ سائنسدانوں کو لیبارٹری سے وائرس کے لیک کے خیال پر بالکل یقین نہیں۔
آسٹریلیا کی سڈنی یونیورسٹی کے وائرلوجسٹ اور وبا کے آغاز میں چائنا کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی) کے مہمان پروفیسر ایڈی ہولمز نے کہا کہ بیجنگ کی جانب سے یقیناً حالات کو بدلنے اور لیبارٹری سے وائرس لیک ہونے کے خیال کو دبانے کی کوشش کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ سی ڈی سی کے پاس وائرس کا جینوم سیکونس 26 دسمبر 2019 کو موجود تھا ، مگر انہوں نے عوام کو کہا کہ یہ ایک سے دوسرے فرد میں منتقل نہیں ہو سکتا اور سیکونس کی تفصیلات 10 جنوری کے بعد دنیا سے شیئر کی گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ووہان میں لوگ نومبر 2019 سے بیمار ہونے لگے تھے مگر عالمی ادارہ صحت کو ایک نئی جان لیوا بیماری کے پھیلنے کا علم 31 دسمبر کو ہوا۔