چین کے سرکاری اخبار گلومل ٹائمز میں شائع آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ امریکا اور تائیوان کی ملی بھگت نے خطے کو ٹکراؤ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے ۔ حالات اس طرف جا رہے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ کسی وقت بھی چھڑ سکتی ہے۔آرٹیکل میں تائیوان کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ آگ سے کھیلنا بند کرے ۔ تائیوان کی صدر سائی انگ وین اس عزم کا اظہار کر چکی ہیں کہ تائیوان کے تحفظ کیلئے وہ ہر ممکن قدم اٹھائیں گی ۔اپنے ایک آرٹیکل میں انہوں نے کہا کہ تائیوان کے سقوط کے علاقائی امن اور جمہوری نظام پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے ۔ چینی جنگی طیاروں کی تائیوان کے ڈیفنس زون کی خلاف ورزیوں پر صدر سائی انگ وین نے بیجنگ پر زور دیا کہ اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ اشتعال انگیزیاں بند کرے ۔
ادھر چینی صدر شی جن پنگ تائیوان پر قبضے کو ناگزیر قرار دے چکے ہیں، 2016ء کے خود مختاری کے مینڈیٹ کی بنیاد پر انتخاب کے بعد بیجنگ نے تائیوان کی صدر سائی انگ پر بھی دباؤ بڑھا دیا ، چین ویتنام اور فلپائن پر بھی اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتا ہے ۔
بڑھتی کشیدگی کے باوجود برطانیہ، امریکا ، جاپان سمیت چھ ملکوں کے طیارہ بردار نیول جہازوں نے بحیرہ فلپائن میں گزشتہ ہفتے جنگی مشقیں کیں۔ آبنائے تائیوان میں برطانوی و امریکی نیوی کے گشت کے علاوہ چار ملکی آکوس دفاعی معاہدہ اور بحیرہ جنوبی چین میں طاقت کے مظاہرے بھی بیجنگ کو مسلسل اشتعال دلا رہے ہیں۔
آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ تائیوان کی حیثیت کے حوالے سے کشیدگی بہت پہلے سے تھی مگراس میں اضافہ 2019ء میں اس وقت ہوا جب شی جن پنگ نے تمام جزائر کو چین میں ضم کرنے کے عزم اور ضرورت پڑنے پر طاقت کے استعمال کا حق محفوظ رکھنے کی بات کی۔ جواب میں امریکا نے بیجنگ کی بڑھتی طاقت کے توڑ کیلئے نئے اتحاد تشکیل دئیے ، جن میں امریکا، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کا چار ملکی اتحاد شامل ہے ۔ آکوس معاہدہ اور آسٹریلیا کو نیوکلیئر آبدوزوں سے لیس کرنا بیجنگ کیلئے سخت وارننگ تھا۔
آکوس معاہدہ کے بعد چین نے تائیوان کے دفاعی زون پر جنگی طیاروں کی پروازوں میں اضافہ کر دیا جوکہ برطانیہ اور آسٹریلیا کو مستقبل کی لڑائی میں دھکیلنے کے حوالے سے بھی اہم ہیں۔ تائیوان کے گرد لڑائی اس میں امریکا کو بھی گھسیٹ سکتی ہے ، جوکہ تائیوان کے حوالے سے ایک مبہم پالیسی پر عمل پیرا ہے ، کیونکہ امریکا نے کبھی نہیں کہا کہ تائیوان پر حملے کی صورت میں وہ کیا کرے گا۔