اکھنڈ بھارت کی حقیقت، 57 سے زائد علیحدگی کی تحریکیں، فوج نے ہاتھ کھڑے کر دئیے

8  اکتوبر‬‮  2021

طاقت کے ستون پر کھڑی دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کا پول کھل کر اصلی چہرہ سامنے آ گیا۔سٹریٹجک ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں اس وقت علیحدگی کی 19 سے زائد سے زائد تحریکیں چل رہی ہیں۔

بھارت میں آزادی کی سب سے بڑی تحریک جموں کشمیر کی ہے، اس کے بعد خالصتان، آسام، ناگا لینڈ، منی پور، تلنگانہ، تامل ناڈو، کیرالہ، اتر پردیش، کرناٹکا، مدھیا پردیش، جھاڑکھنڈ، آندھرا پردیش، بہار، مغربی بنگال، میزورام، تری پورا، میگالیا میں علیحدگی پسند تحریکیں عروج پر ہیں جہاں وفاقی حکومت کا کنٹرول عملاً ختم ہو چکا ہے۔ ارونا چل پردیش میں بھی علیحدگی کی تحریک عروج پر ہے جبکہ چین بھی ارونا چل پردیش کو تبت کا علاقہ قرار دیتے ہوئے وہاں ہندوستان کے قبضے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔ ان تحریکوں میں بھارتی سیکیورٹی فورسز کیساتھ تصادم کی وجہ سے لگ بھگ 2 لاکھ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ یہ صرف ان ریاستوں کے اعدادوشمار ہیں جہاں بغاوت اس انتہاء کو پہنچ چکی ہے کہ وہاں رٹ قائم کرنے کیلئے بھارتی فوج نے بھی حکومت کے سامنے ہاتھ کھڑے کر دئیے ہیں۔ علیحدگی کی دیگر چھوٹی تحریکیں اس کے علاوہ ہیں ، صرف آسام میں  علیحدگی کی 34 ایسی تحریکیں چل رہی ہیں جنہوں نے حکومت کے خلاف بغاوت اور تصادم کے پیش نظر عسکری تربیت کیمپ بھی قائم کر رکھے ہیں، ان اعدادوشمار کی بنیاد پر بھارت میں دیگر علیحدگی کی تحریکوں کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

2019ء میں شائع ہونے والی ایک اوررپورٹ کے مطابق بھارت میں 57 سے زائد آزادی اور علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں جن میں سے 17 بڑی جبکہ 50 چھوٹی تحریکیں تھیں اور بھارت کے 162 اضلاع میں علیحدگی پسندوں کا مکمل کنٹرول ہے۔

آئیے آپ کو بھارت میں چلنے والی علیحدگی کی تحریکوں کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے بتاتے ہیں کہ کسطرح 70 فیصد سے زائد بھارت کا شیرازہ بکھرنے کو ہے۔بھارت میں کشمیر کی آزادی کی تحریک کے بعدعلیحدگی کی سب سے بڑی تحریک خالصتان کی ہے جو کہ راجستھان اور بھارتی پنجاب سمیت دیگر ریاستوں میں چل رہی تھی۔ لیکن اب  اسکو نئی ہوا کسانوں کے احتجاج نے دی ہے، جنہوں نے اپنے دھرنے کے دوران دہلی کے لال قلعے پر اپنا مذہبی پرچم بھی لہرادیا اور بھارتی سیکیورٹی فورسز ان کے سامنے بھیگی بلی کا کردار ادا کرتے نظر آئیں۔ خالصتان تحریک کا آغاز1970ء کے اواخر میں ہوا جب سکھوں نے بھارتی حکومت کی ناانصافیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا، بھارتی سرکار کو وہاں اپنے پاؤں اکھڑتے نظر آئے تو 1984ء میں امرتسر ، گولڈن ٹیمپل اور دیگر علاقوں میں بلیو سٹار نامی فوجی آپریشن کیا گیا جس میں 2500 سے زائد سکھوں کا بے دردی سے قتل عام کیا گیا اور طاقت کے زور پر رٹ قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن سکھوں کا غصہ ابھی تک کم نہیں ہوا اورانہوں نے خالصتان کی تحریک جاری رکھی جسکے لئے 2022ء میں ریفرنڈم کا مطالبہ بھی عالمی سطح پرزور پکڑتا جا رہا ہے۔ بھارت نے دہلی میں کسانوں کے دھرنے اور اس سے پہلے بھی پاکستان پر خالصتان کو سپورٹ کرنے کے الزامات لگائے لیکن ہر بار بھارت کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔2019ء میں بھارتی واویلے پر برطانوی حکومت کے شدت پسندی کیخلاف کمیشن نے اپنی رپورٹ جاری کرتے ہوئے واضح الفاط میں کہا کہ

  • خالصتان تحریک کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ نہیں ہے۔
  • گولڈن ٹیمپل حملے کے بعد سے خالصتان کے مطالبے میں شدت آئی ہے۔
  • سکھوں کی اکثریت علیحدہ ملک کا قیام چاہتی ہے جبکہ بھارتی حکومت اور میڈیا کا رویہ بھی سکھ علیحدگی پسندی کو ہوا دے رہا ہے۔
  • رپورٹ میں واضح طور پرمطالبہ کیا گیا ہے کہ سکھوں کو انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دئیے بغیر انہیں الگ ملک کے قیام پر بحث کی اجازت دی جائے۔

بھارت کی طرف سے تحریک خالصتان روکنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو جانے والا زمینی راستہ مشرقی پنجاب سے ہو کر گزرتا ہے۔ بھارتی حکومت بخوبی سمجھتی ہے کہ اگر خالصتان کا قیام عمل میں آتا ہے تو کشمیر بھی ہاتھ سے گیا۔

سٹریٹجک ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو خالصتان، مدھیہ پردیش، اتر پردیش اورکرناٹکا اتنے بڑے رقبے کی حامل تحریکیں ہیں کہ یہ سب ریاستیں الگ الگ ممالک کے قیام کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

 جبکہ کیرالہ اور تامل ناڈو  اور آندھرا پردیش چونکہ جڑواں ریاستیں ہیں اسلئے آپسی تعاون کے باعث اتنی طاقتور ہو چکی ہیں وفاقی حکومت انکے سامنے بے بس ہو چکی ہے۔ کیونکہ بھارتی فوج نے چھوٹے بڑے درجنوں آپریشنز کے بعد حکومت کو جواب دے دیا ہے کہ ہم مقامی جنگ میں اتنی زیادہ تعدادمیں اپنے  فوجی نہیں مروا سکتے۔

عالمی میڈیا میں رپورٹ ہونے والی خبروں سے یہی اخذ کیا جاتا ہے کہ کشمیر کی آزادی اور خالصتان کی علیحدگی کی تحریک بھارتی حکومت کیلئے دردسر بنی ہوئی ہے، جو کہ اپنی جگہ درست ہے لیکن دوسری ریاستوں کے حالات  بھی اس قدر کنٹرول سے باہر ہیں کہ بھارتی حکومت کیلئے گلے کی چھپکلی بنے ہوئے ہیں جو نہ اُگلی جا سکتی ہے نہ ہی نگلی جا سکتی ہے۔

بھارت کے شمال مشرقی خطے ناگا لینڈنےبھی 14 اگست 2019ء کو  اپنے 73ویں یوم آزادی کے طور پر منایا۔ یوم آزادی کی تقریب میں ناگا لینڈ کا قومی پرچم اور قومی ترانہ بھی پیش کیا گیا جس میں خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالزم (این ایس سی این) یروئیوو ٹکو نے کہا کہ ہماری 88 فیصد سے زائد آبادی غیر ہندو ہے، ناگا لینڈ کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہا کیونکہ ہماری اپنی زبان، اپنا مذہب اور اپنا کلچر ہے، لیکن بھارت نے 1947ء سے بعد جس طرح مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کیا بالکل اسی طرح ناگا لینڈ پر بھی قبضہ کر رکھا ہے، ہم آج بھارت سے آزادی کا اعلان کرتے ہیں۔

بھارت کی ایک اور شمال مشرقی ریاست منی پور کے 2 رہنماؤں یامبین بیرن اور نارنگبام سمرجیت نے اکتوبر 2019ء میں لندن میں پریس کانفرنس کی اور بھارت سے آزادی کا اعلان کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ منی پور کے سابق راجہ لیشمبا سناجوبا کی نمائندگی کرتے ہیں اور وہی ریاست کے مالک ہیں، بھارت کا منی پور پر قبضہ غاصبانہ ہے، ہم منی پور کی مکمل آزادی تک جلاوطن رہیں گے ا ور مزید یہ کہ ہمیں حصول آزادی کیلئے عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے، بھارتی فوجیوں کو ہمارا علاقہ فی الفور خالی کردینا چاہیے ورنہ نتائج خطرناک ہوں گے۔

بھارت میں علیحدگی کی تیسری سب سے بڑی تحریک آسام کی ہے جس کا آغاز 90ء کی دہائی میں ہوا جب آسام کی 34 تحریکوں میں سے ایک مسلح گروپ یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام نے بغاوت کرتے ہوئے حکومت سے علیحدگی کا مطالبہ کر دیا، بھارتی حکومت نے اس تنظیم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے وہاں فوجی آپریشن شروع کردیا جو کہ تاحال جاری ہے جس میں اب تک 30 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ بھارتی حکومت کے فوجی آپریشن کے باعث بغاوت اور فوج کے ساتھ تصادم کا سلسلہ تمام شمال مشرقی ریاستوں اور قبائلی علاقوں تک پھیل چکا ہے۔ ماؤ نوازوں اور نکسل باڑیوں کی سرگرمیاں آسام کے علاوہ جھاڑ کھنڈ، چھتیس گڑھ، اڑیسہ، بہار اور مغربی بنگال تک پہنچ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کی 20 ریاستوں کے 600اضلاع میں سے 223 میں ماؤنواز باغی سرگرم ہیں، جن میں سے زیادہ تر اضلاع کا مکمل اور کچھ اضلاع کا جزوی کنٹرول   ماؤنواز باغیوں کے ہاتھ میں ہے، ماؤنواز تنظیم کی ایک  عسکری شاخ کے سربراہ کوٹیشور راؤ عرف کشن جی نے دعویٰ کیا  ہے کہ ہمیں نئی دہلی پر قبضہ کرنے میں زیادہ سے زیادہ 15 سال لگیں گے۔

نکسل باڑی شمال مشرقی ریاستوں کی ایک مسلح علیحدگی پسند تنظیم ہے   جسے ماؤنواز باغیوں کی مکمل حمایت حاصل ہے، نکسل باڑیوں کا  کنٹرول بھی سینکڑوں اضلاع پر ہے، بھارتی حکومت نے نکسل باڑیوں کو ملکی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی دھمکی دی ہے جسکی تیاری کیلئے بھارتی فضائیہ کو احکامات بھی جاری کر دئیے گئے ہیں۔

ان ریاستوں کا کنٹرول پہلے ہی بھارتی حکومت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے جبکہ رہی سہی کسر  بھارتی شہریت کے قانون سی اے اے نے نکال دی ہے، جس کے ردعمل سے آپ سب آگاہ ہیں۔

چین کا بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکوں سے گہرا تعلق ہے، کیونکہ چین اروناچل پردیش کو مغربی تبت قرار دیتے ہوئے اس پر بھارت کا حق تسلیم نہیں کرتا، اور اسے متنازعہ علاقہ قرار دیتا ہے، اسی لئے فروری 2020ء میں جب نریندر مودی نے اس علاقے کا دورہ کیا تو چین نے اسکے خلاف باضابطہ طور پر احتجاج بھی ریکارڈ کرایا۔ اس کے علاوہ  چین نےبھارت اور بھوٹان کے متنازع سرحدی علاقے میں تعمیرات شروع کر دی ہیں، جن  پینگڈہ نامی گاؤں کی تعمیر کیساتھ ڈوکلام کے قریب فوجی بنکرز تعمیر کئے جا رہے ہیں۔

اس علاقے کو اگر بھارت کی نبض کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، فضل حیدر جو کہ آسٹریلوی تجزیہ کار ہیں انکا کہنا ہے کہ یہ کوریڈور بھارت اور اسکی شمال مشرقی ریاستوں کو ملانے کا صرف ایک رستہ ہے، صرف اس 80 میل کے علاقے پر قبضہ کرنے سے چین بھارت کو مغربی بنگال، اور شمال مشرقی ریاستوں سے بآسانی الگ کر سکتا ہے۔

چین یہ سب اس لئے کر رہا ہے کیونکہ امریکہ تائیوان، تبت اور ہانگ کانگ میں علیحدگی پسندوں کی مدد کیلئے بھارت کو استعمال کر رہا ہے۔ جس کے ردعمل میں چین نے بھارت کو واضح پیغام دیا ہے کہ  وہ تائیوان اور دیگر  علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی سے باز رہے ورنہ چین بھی  بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں علیحدگی پسندوں کی حمایت کرے گا، جس کی صورت میں بھارت کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔

اگر بھارت کی تمام علیحدگی پسند تحریکوں کو شمار کیا جائے تو وفاق کا کنٹرول صرف ریاست گجرات اور مہاشٹرا کے علاوہ کچھ علاقوں میں نظر آتا ہے، باقی لگ بھگ 70 فیصد سے زائد بھارت پر عملاً وفاقی حکومت کی کوئی رٹ نظر نہیں آتی، بھارت جسے قیام سے ہی علیحدگی پسند تحریکوں کا سامنا تھا اب مودی کے آمرانہ طرزحکومت نے اسے تقسیم کے دہانے پر لاکے کھڑا کر دیا ہے۔

عالمی دفاعی تجزیہ کاروں کی رائے

برطانوی جریدے دی گارڈین نے 17 جنوری 2021ء کو اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ بھارت جو کہ ہندو انتہا پسند جماعتیں ہندوستان کی تقسیم کے راستے پر ہیں 70 سال سے بھارت کسی حد تک ایک آئین کے تحت چل رہا تھا لیکن مودی کے دور حکومت نے اسے تقسیم کے رستے پر گامزن کر دیا ہے۔

بلوم برگ نے فروری 2020ء کواپنے ایک مضمون میں لکھا کہ مودی بھارتیوں کیلئے بہت بڑا رسک ہے جسکی انتہاء پسند پالیسیاں بھارت کو تقسیم کردیں گی۔

امریکی جریدے نیویارک ٹائمز نے 2019ء کو ایک تجزیاتی رپورٹ میں لکھا کہ مودی کا ہندوتوا کا نظریہ بھارت کو تقسیم کردے گا۔

ایک اور امریکی جریدے فارن پالیسی نے جولائی 2020ء کو ایک رپورٹ میں لکھا کہ مودی کا طرزحکمرانی آمرانہ ہے، بھارتی حکومت کی انتہاء پسند ہندوانہ پالیسیاں بھارت کی سلامتی کیلئے خطرے کا باعث بنیں گی۔

خود بھارتی اخبار دی ہندو نے  جنوری 2020ءاپنی ایک رپورٹ میں حکومت کو خبردار کرتے ہوئے  کہا کہ مودی حکومت مذہب کارڈ کے ذریعے ملک کو تقسیم کر رہی ہے، شہریت ایکٹ سے ملک  عملاًتقسیم ہو چکا ہے۔

بھارتی حکومت اسی لئے کشمیر میں آزادی کی تحریک، خالصتان اور آسام کی تحریکوں کو کچلنے کیلئے تمام تر وسائل کے بے دریغ استعمال کر رہا ہے، کشمیر اور آسام فوجی چھاؤنیوں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ کیونکہ جیسے عالمی نشریاتی ادارے اور تجزیہ کار بھارت کو خبردار کر رہے ہیں ویسے بھارتی حکومت بھی بخوبی جانتی ہے کہ اگر علیحدگی کی ایک بھی تحریک کامیاب ہو گئی تو اسکی دیکھا دیکھی دیگر تحریکوں کو بھی ہوا ملے گی اورپھر نتیجتاًبھارت کا بکھرتا ہوا شیرازہ دنیا دیکھے گی اور دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کا قلعہ زمین بوس ہو کر رہ جائے گا۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں






About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved