اسلام آباد – (اے پی پی و دیگر):وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں پابندیوں سے انسانی بحران اور افراتفری پیدا ہونے کا خدشہ ہے،تین لاکھ افغان فوج نے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دئیے،طالبان کو وقت دیا جائے، افغانستان کے ہمسائے جامع حکومت کے حامی ہیں، افغانستان تمام ہمسایہ ممالک کے لئے ایک تجارتی گزر گاہ ہے۔
پیر کو مڈل ایسٹ آئی کو خصوصی انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دنیا کو افغانستان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہئے۔ انہیں پابندیاں لگا کر مجبور کریں گے تو وہ مزاحمت کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے 2008ء میں امریکی قیادت کو بتا دیا تھا کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ۔
“Sanctioning Taliban would create humanitarian crisis in Afghanistan,”
Prime Minister @ImranKhanPTI,
Exclusive interview to@MiddleEastEye pic.twitter.com/nZcKg15CFm— Prime Minister’s Office, Pakistan (@PakPMO) October 11, 2021
افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور طالبان کی پیش قدمی کے بعد ہم افراتفری اور روس اور برطانیہ کے افغانستان سے نکلنے کے بعد کی طرح خانہ جنگی کی توقع کررہے تھے لیکن تین لاکھ افغان فوج نے بغیر لڑے ہتھیار ڈال دئیے۔افغانستان میں حکومت صرف شہری علاقوں تک تھی دیہی علاقوں میں طالبان کو مقبولیت حاصل تھی۔
امریکی انخلا کے بعد کی صورتحال سے ثابت ہوا کہ کٹھ پتلی اور کرپٹ حکومت کے لئے کوئی نہیں لڑتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان خطے میں اقتصادی تعاون کا فروغ چاہتا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ امریکی صدر سے میری بات نہیں ہوئی تاہم وزیرخارجہ کی امریکی ہم منصب اور دیگر سطح پر ہم رابطے میں ہیں۔
امریکہ طالبان کو امدادی پیکج دے، ورنہ وہاں افراتفری ہو گی
امریکا کو افغانستان کو امدادی پیکج دینا ہوگا یا کسی ایسے ملک کے خاتمے کا سامنا کرنا پڑے گا جو داعش کے عسکریت پسندوں کی پناہ گاہ بن جائے گا۔ پاکستان کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ واشنگٹن اس چیلنج کو پورا کرے ،یہ واقعی نازک وقت ہے اور امریکہ کو خود کو اکٹھا کرنا ہوگا کیونکہ امریکا میں لوگ صدمے کی حالت میں ہیں۔ جب تک امریکہ قیادت نہیں کرے گا ہم پریشان ہیں کہ افغانستان میں افراتفری ہوگی اور اس کی وجہ سے ہم سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ امریکا کے پاس افغانستان میں مستحکم حکومت کی حمایت کیلئے ہر ممکن کوشش کرنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں تھا کیونکہ طالبان ہی خطے میں داعش سے لڑنے کا واحد آپشن تھے۔ اگر دنیا نے طالبان کے ساتھ روابط نہ رکھے تو یہ بآسانی 2000ء کے طالبان کے پاس جا سکتا ہے اور یہ بڑی تباہی ہو گی۔
جیسے سوویت یونین 1989ء میں افغانستان کو چھوڑ کر چلا گیا تھا اور وہاں خانہ جنگی کے باعث 2 لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے تھے ، اگر اب بھی افغانستان کو ایسے ہی چھوڑ دیا گیا تو خدشہ ہے کہ یہ 1989ء کا افغانستان بن جائے گا۔
طالبان کو وعدوں کی تکمیل کیلئے وقت دینا چاہیے
افغانستان میں انسانی حقوق کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ طالبان نے حکومت میں داخلے پر پابندی صرف سابقہ حکومت کے اراکین پر لاگو کی گئی ہے جو بدعنوانی میں ملوث تھی۔ باقی جامع حکومت اور انسانی حقوق کی پاسداری کے وعدوں کی تکمیل کیلئے طالبان کو وقت دینا چاہیے،ان پر پابندیاں لگانا یا انہیں مجبور کرنا مسائل کا حل نہیں۔
” The world must engage with Afghanistan, “
Prime Minister @ImranKhanPTI,
exclusive interview to@MiddleEastEye pic.twitter.com/gAkL6EXYCx— Prime Minister’s Office, Pakistan (@PakPMO) October 11, 2021
ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات، انہیں واضح کردیا کہ پاکستان کا آئین تسلیم کرنا ہو گا
تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے 50 گروپس ہیں اور وہ ان عناصر سے صلح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو بات چیت کیلئے تیار ہیں۔ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کیلئے دو شرائط رکھی ہیں، قبائلی علاقوں میں شرعی قوانین اور قیدیوں کی رہائی جبکہ حکومت پاکستان کا اصرار ہے کہ ان علاقوں میں صرف آئین پاکستان ہی لاگو ہوتا ہے اور آپ کو اسی کے تحت رہنا ہو گا۔اب ہم ان لوگوں سے بات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن میں صلح ہو سکتی ہے، میرا ماننا ہے کہ ہر انتشار اور تنازعات کا حل بالآخر بات چیت سے نکلتا ہے۔
دنیا کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے
وزیراعظم نے کہا کہ بھارت میں مکمل طور پر نسل پرست حکومت قائم ہے، دنیا کو بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لینا چاہئے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیا جائے۔