حالیہ دور کےایسے کئی ڈرامے ہیں، جنہیں وہ نہ صرف دیکھنا تک پسند نہیں کرتےبلکہ انہیں ڈراموں پر ہی اعتراض ہے مگر کیا کریں کہ آج کل ڈرامے میں جتنی بیہودگی ہوگی، اس کی اتنی ہی زیادہ ریٹنگ آتی ہے۔
امریکی جریدے وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں لیجنڈری ڈراما ساز، مزاح نگار اور مصنف انور مقصود کا کہنا تھا کہ میں کسی ڈرامے کا نام نہیں لیتا لیکن ایسے کئی ڈرامے ہیں جن پر مجھے سخت اعتراض ہے لیکن وہ مشہور بھی ہوتے ہیں اور انہیں دیکھا بھی جاتا ہے جب کہ ان کے مصنف بھی کافی پسند کئے جاتے ہیں۔
مزید ان کا کہنا تھا کہ میڈیا میں ریٹنگ کے آنے سے کافی چیزیں تبدیل ہوئی ہیں، آج کل ڈرامے میں جتنی بیہودگی ہوگی، اتنی ہی زیادہ اس کی ریٹنگ آئے گی، جتنا فضول جملہ ہوگا، اتنا اسے پسند کیا جائے گا اور کوئی ٹی وی میزبان اپنے مہمان کے ساتھ جتنی بدتمیزی کرے گا، اس پروگرام کی بھی اتنی ہی زیادہ ریٹنگ آئے گی۔
انور مقصود مصنف ہونے کے باوجود کوئی کتاب کیوں نہیں لکھتے؟
انور مقصود کا کہنا ہے بہت سارے ڈرامے لکھنے کے باوجود آج تک میں نے کوئی کتاب نہیں لکھی اور نہ ہی کتاب لکھنے کا کوئی ارادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے پاس مقدس کتاب قرآن مجید، دیوان غالب، کلیات میر اور علامہ اقبال کی کتابیں موجود ہیں، ان کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی کتاب لکھنے کی جرات نہیں ہوئی۔
میرا کوئی ٹوئٹر اکاؤنٹ نہیں ہے
سوشل میڈیا کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے لیجنڈ مصنف کا کہنا تھا کہ میرا کوئی ٹوئٹر اکاؤنٹ نہیں ہے، میرے نام سے چلائے جانے والےمتعدد اکاؤنٹس کے توسط سے وزیر اعظم عمران خان سے بھی رابطہ کیا گیا۔
جب انور مقصود کو بطور کامیڈی ڈرامہ مصنف ایوارڈ نہ دیا گیا
ایوارڈز کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انور مقصود صاحبنے اپنا ایک قصہ سنایا کہ جنرل ضیا الحق نے ان کے مقبول کامیڈی شو ففٹی ففٹی کی تمام ٹیم کو ایوارڈز دئیے مگر انہیں نہیں دیا، میں نے پی ٹی وی کے ایم ڈی جو اس وقت جنرل ضیا کے انفارمیشن سیکریٹری بھی تھے ان سےپوچھا کہ انہیں ایوارڈ کیوں نہیں دیا گیا؟ میرے سوال پر ایم ڈی صاحب نے انہیں بتایا کہ کامیڈی شو میں تو لکھاری کا کوئی کام ہی نہیں ہوتا، ساری محنت اور کام اداکاروں کا ہوتا ہے، جس وجہ سے انہیں ایوارڈ نہیں دیا گیا۔ انور مقصود صاحب نے بتایا کہ میں نےایم ڈی سے معذرت کی اور کہا کہ وہ نہ جانے کیوں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کامیڈی شو میں لکھاری کا کوئی کام نہیں ہوتا۔