عمران خان پر مقدمے کے وقت 7 ریاستی اداروں نے سائفر کی کاپی واپس نہیں کی تھی، دفتر خارجہ کی رپورٹ

27  مارچ‬‮  2024

جب وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ڈپلومیٹک سائفر کی کاپی رکھنے پر مقدمہ درج کیا تھا تب تک 7 دیگر ریاستی دفاتر نے اپنی کاپیاں وزارت خارجہ کو واپس نہیں کی تھیں۔

نجی جریدے کی رپورٹ کے مطابق عدالتی ریکارڈ سے پتا چلاتا ہے کہ عمران خان کے خلاف سائفر ٹرائل کے مرکز میں خفیہ سفارتی کیبل 9 اعلیٰ دفاتر کو بھیجی گئی اور سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف مقدمہ درج ہونے تک صرف ایوان صدر نے ہی 15 اگست 2023 کو اس کی کاپی واپس کی تھی۔

یہ 27 ستمبر 2023 کو وزارت خارجہ کی طرف سے مختلف دفاتر کو بھیجے گئے سائفر کی کاپیوں کی حیثیت کے بارے میں ایف آئی اے کے خط پر جمع کرائے گئے جواب کا خلاصہ ہے۔

یہ انکشاف سائفر ٹرائل میں پراسیکیوٹنگ ایجنسی ایف آئی اے کے لیے مشکل پیدا کرسکتا ہے کہ کیونکہ ایجنسی کو یہ جواز پیش کرنا پڑے گا کہ کیوں صرف سابق وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کو پراسیکیوشن کے لیے شامل کیا گیا، جب کہ دیگر ریاستی دفاتر نے بھی خفیہ دستاویز کی کاپیاں واپس نہیں کی تھیں۔

زیادہ تر وصول کنندگان نے ایک سال سے زیادہ عرصے تک کاپیاں اپنے پاس رکھی اور انہیں صرف اس وقت واپس کیا جب سابق وزیر اعظم اور ان کے وزیر خارجہ کے خلاف باقاعدہ کارروائی شروع ہوئی۔

8 وصول کنندگان میں صرف صدر، جنہوں نے 15 جون 2023 تک دستاویز واپس کر دی، اور سیکریٹری خارجہ کو مستثنی حاصل تھا جنہوں نے اتفاق سے اس کی کاپی اسی تاریخ یعنی 15 اگست، 2023 کو واپس کر دی تھی جب عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

نجی جریدے کی طرف سے دیکھے گئے وزارت خارجہ کے جواب سے ظاہر ہوتا ہےکہ 8 مارچ سے 27 اپریل 2022 کے درمیان سائفر کی کاپیاں وزیراعظم کے سیکریٹری، صدر، چیف آف آرمی اسٹاف، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ اور چیئرمین سینیٹ کو بھیجی گئیں جبکہ 2،2 کاپیاں کابینہ سیکریٹری اور چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی بھیجی گئیں۔

ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) آئی ایس آئی، چیئرمین سینیٹ اور کابینہ سیکریٹری کی تین کاپیاں ایف آئی اے کی جانب سے ریکارڈ طلب کرنے سے صرف ایک دن قبل یعنی 26 ستمبر 2023 کو وزارت خارجہ کو واپس کی گئیں تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایف آئی اے نے 27 ستمبر کو اپنا سوال نامہ پیش کیا اور وزارت خارجہ نے اسی دن جواب دے دیا، جواب کے مطابق کابینہ سیکریٹری، چیف جسٹس اور آرمی چیف کو بھیجی گئی سائفر کی کاپیاں بھی اسی روز واپس کر دی گئیں تھی۔

وزارت خارجہ کی فہرست میں صرف 8 مارچ 2022 کو وزیر اعظم کے سیکریٹری کو بھیجی گئی ایک کاپی کو ’واپس نہیں آئی‘ کے طور پر نشان زد کیا گیا، ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ نے اسلام آباد میں درج ایف آئی آر میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے سیکشن 5 اور 9 اور پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 34 کے تحت فرد جرم عائد کی تھی۔

ان پر ذاتی فائدے کے لیے سائفر میں بیان کردہ حقائق کو توڑ مروڑ کر افشاں کرنے کا الزام لگایا تھا جو کہ ریاست کی سلامتی کے لیے نقصاندہ تھا۔

ایف آئی آر میں یہ بھی الزام لگایا گیا کہ عمران خان نے خفیہ سفارتی کیبل کو اپنے پاس رکھا، جس سے بیرون ملک پاکستانی مشنز کے ذریعے استعمال ہونے والے سائفر انکرپشن سسٹم پر سمجھوتہ ہوا۔

ایف آئی آر کے مطابق تحقیقات 5 اکتوبر 2022 کو مکمل ہوگئی تھی، تاہم عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے 19 مارچ کو ہونے والی سماعت میں نشاندہی کی کہ 12 اکتوبر 2022 کو باضابطہ شکایت درج کرائی گئی تھی۔

ایک اور سماعت میں بیرسٹر صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھیجی گئی کاپی بھی بہت عرصے بعد واپس کی گئی تھی۔

یاد رہے کہ 10 جنوری 2024 کو سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو دس، دس سال قید با مشقت کی سزا سنا دی گئی۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں


About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved