پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کے درمیان نئے قرض پروگرام کے لیے مذاکرات جاری ہیں، جس میں نئے مالی سال کے دوران محصولات میں ایک ہزار ارب روپے سے زائد اضافے پر بات چیت کی گئی۔
ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف آئندہ مالی سال کے دوران محصولات کا ہدف 11 ہزار ارب روپے سے زائد چاہتا ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کی جانب سے نئے اقدامات کے بارے میں وزارت خزانہ کو بریفنگ دی گئی، آئی ایم ایف نے زرعی آمدن کو بھی انکم ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کا مطالبہ کیا۔
ذرائع کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی میں زراعت کا 24فیصد حصہ ہے، زرعی آمدن کو نارمل انکم ٹیکس کے دائرے میں لانے کی تجویز دی گئی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ٹیکس چھوٹ ختم کرنے پر بھی آئی ایم ایف سے بات چیت جاری ہے، آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پنشن پر بھی انکم ٹیکس کی چھوٹ ختم کی جائے۔
اسی طرح نان فائلرز کے لیے ٹیکس کے ریٹ مزید بڑھانے پر بھی آئی ایم ایف سے بات چیت جاری ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ تنخواہ دار طبقے پر بھی انکم ٹیکس کے سلیب میں نظرثانی کرنے اور لگژری اشیا کی درآمد پر بھی ٹیکسوں میں اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز پاکستان نے آئی ایم ایف کو خصوصی سرمایہ کاری کونسل (ایس آئی ایف سی) کے آپریشنز میں شفافیت کی یقین دہانی کرائی تھی۔
ڈان نیوز کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ ایس آئی ایف سی میں سرمایہ کاری پبلک انویسٹمنٹ مینجمنٹ فریم ورک کے تحت کی جائے گی، ایس آئی ایف سی فورم کے ذریعے سرمایہ کاری کے غیر مساوی مواقع پیدا نہیں ہوں گے۔
واضح رہے کہ 10 مئی کو پاکستان کے ساتھ نئےقرض پروگرام پر مذاکرات کے لیے پہلے مرحلے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی تکنیکی ماہرین کی ٹیم پاکستان پہنچ گئی تھی۔
ذرائع وزارت خزانہ نے بتایا کہ نئے قرض پروگرام پر مذاکرات کا آغاز 15 مئی سے شیڈول ہے، آئی ایم ایف مشن چیف نیتھن پورٹر وفد کی قیادت کریں گے۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ ماہرین کی ٹیم وزارت خزانہ اور ایف بی آر حکام سے ملاقاتیں کریں گی، مذاکرات سے پہلے ماہرین کی ٹیم حکومت کے ساتھ ڈیٹا پربات چیت کرے گی، وزارت خزانہ نئے قرض پروگرام پر آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ نیا قرض پروگرام 6 سے 8 ارب ڈالرز اور دورانیہ تین سال یا اس سے زیادہ ہو سکتا ہے۔