امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی جانب سے جامع سیز فائر کا منصوبہ پیش کرتے ہوئے حماس سے اسے قبول کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ جنگ ختم کرنے کا وقت ہے اور ہم اس موقع کو گنوا نہیں سکتے۔
خبر رساں ایجنسیوں اے ایف پی اور روئٹرز کے مطابق امریکی صدر نے غزہ میں سیز فائر کا اسرائیل کا منصوبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سیز فائر کے بدلے حماس تمام قیدیوں کو رہا کرے اور یہ اس تنازع کو ختم کرنے بہترین طریقہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سیز فائر کے بعد جن لوگوں کو بھی امداد کی ضرورت ہے، ان میں امداد کو موثر اور محفوظ طریقے سے تقسیم کیا جا سکے گا۔
وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے جو بائیڈن نے مجوزہ معاہدے کی کمل تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں مکمل سیز فائر کیا جائے، گزہ کے تمام آبادی والے علاقوں سے اسرائیلی فورسز کا مکمل انخلا کیا جائے اور اسرائیل کی قید میں موجود فلسطینیوں کے بدلے حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے تمام افراد کو رہا کیا جائے۔
انہوں نے بطور امریکی صدر اسرائیل کے تحفظ کے لیے اٹھائے اقدامات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے شخص کے طور پر جس کی پوری زندگی اسرائیل کے ساتھ وابستگی رہی ہو، جنگ کے دوران اسرائیل جانے والے واحد صدر اور ایران کے حملے کے بعد امریکی افواج کو براہ راست اسرائیل کے دفاع کے لیے بھیجنے والے شخص کی حیثیت سے میں آپ سے کہتا ہوں کہ ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں اور سوچیں کہ اگر یہ لمحہ ضائع ہو گیا تو کیا ہوگا، ہم اس لمحے کو گنوا نہیں سکتے۔
انہوں نے کہا کہ حماس کو اس معاہدے کو قبول کرنا ہو گا، فلسطین کے عوام بدترین جہنم کا سامنا کر چکے ہیں، بڑی تعداد میں شہری مارے جا چکے ہیں لہٰذا یہ اب جنگ ختم کرنے کا وقت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کی بدولت فلسطینی عوام کے لیے خود ارادیت کا بہتر مستقبل میسر آ سکے گا اور فلسطینی اپنے گھروں کو واپس لوٹ سکیں گے، یہ پیشکش میز پر موجود ہے اور ہمیں اسی کی ضرورت ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ اسرائیل میں کچھ لوگ اس منصوبے پر رضامند نہیں ہوں گے، کچھ ایسے لوگ جو حکومت میں بھی موجود ہیں لیکن میں اسرائیلی قیادت پر زور دیتا ہوں کہ وہ کسی قسم کے دباؤ کے بغیر اس معاہدے کی حمایت کریں ورنہ دنیا میں اسرائیل تنہا رہ جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اسرائیلی منصوبہ قطر اور حماس کو روانہ کردیا گیا ہے اور امریکا لبنان کی سرحد پر اس معاہدے کی تیاری میں مدد کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا نے ہمیشہ اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ اسرائیل کے پاس وہ سب کچھ ہو جو اس کو اپنے دفاع کے لیے درکار ہے، حماس میں اب اتنی صلاحیت نہیں رہی کہ وہ 7 اکتوبر جیسا حملہ دوبارہ کر سکیں اور اس معاہدے کی بدولت اسرائیل کو سعودی عرب سمیت خطے میں اپنی حیثیت مزید منوانے میں مدد ملے گی۔
بائیڈن کی جانب سے پیش کیا گیا یہ منصوبہ تین مرحلوں پر مشتمل ہو گا جس میہں کہا گیا کہ پہلے مرحلہ چھ ہفتوں پر مشتمل ہو گا جس میں مکمل سیز فائر ہو گا اور آبادی والے علاقوں سے اسرائیلی فورسز کا انخلا ہو گا۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ پہلے مرحلے کے چھ ماہ کے دوران اسرائیل اور حماس کے درمیان بات چیت جاری رہے گی اور وہ دوسرے مرحلے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کرتے رہیں گے، اگر مذاکرات میں 6ہفتوں سے زائد کا عرصہ لگا تو جب تک بات چیت جاری رہیں گی، اس وقت تک سیز فائر بھی جاری رہے گا۔
معاہدے کے دوسرے حصے کے مطابق حماس کو تمام زندہ بچ جانے والے اسرائیل کے یرغمال بنائے گئے افراد کو رہا کرنا ہو گا اور اس کے بدلے اسرائیل کی بقیہ افواج کا بھی وہاں سے انخلا ہو گا۔
معاہدے کے تیسرے مرحلے میں غزہ کی ازسرنو تعمیر کا بڑا منصوبہ پیش کیا جائے گا۔
جو بائیڈن نے کہا کہ ہماری توجہ سیز فائر کے قیام اور غزہ کی جنگ کے مکمل اختتام پر مرکوز ہے۔
اس سے قبل رواں سال کے آغاز میں جنگ بندی کے لیے ایک اور تجویز پیش کی گئی تھی جس میں بیمار، زخمی اور بزرگ قیدیوں کی رہائی کے بدلے چھ ہفتے کے عبوری سیز فائر کا منصوبہ رکھا گیا تھا اور بعد میں اس میں توسیع کی جانی تھی لیکن اس مجوزہ معاہدے کی امیدیں بھی اس وقت دم توڑ گئی تھیں جب اسرائیل نے مستقبل جنگ بندی کو مسترد کرتے ہوئے رفح پر چڑھائی کردی تھی۔
حماس نے جمعرات کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہم نے ثالثوں کو بتا دیا ہے کہ جب تک یہ جارحیت جاری ہے، ہم مزید کسی قسم کے مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے تاہم اگر اسرائیل جنگ روک دیتا ہے تو ہم قیدیوں کی رہائی کے بدلے مکمل جنگ بندی کا معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل کے سینئر سیکیورٹی عہدیدار نے کہا ہے کہ اسرائیل یرغمالیوں کی واپسی کے بغیر کسی بھی طور پر لڑائی روکنے کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرے گا۔